محمد مصطفی علی سروری
رام سنگھ کی عمر 17 سال ہے اور وہ انٹرمیڈیٹ کا طالب علم ہے۔ راجستھان کے شہر جودھپور سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم، کے متعلق انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے 13؍ اکتوبر کو ایک رپورٹ شائع کی۔ تفصیلات کے مطابق رام سنگھ نے جب اخبار میں نئے فریج کے متعلق ایک اشتہار دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا کیونکہ رام سنگھ کی ماں پپو دیوی کافی عرصے سے ایک نیا فریج خریدنا چاہتی تھی۔ لیکن گھر کے حالات اور پیسوں کی تنگی کے سبب وہ ایسا نہیں کرپا رہی تھی۔ رام سنگھ اپنی ماں کو اس کی سالگرہ کے موقع پر ایک تحفہ دینا چاہتا تھا۔ رام سنگھ اپنی ماں کی زبانی اکثر سنتا رہتا تھا کہ گھر کا فریج خراب ہوگیا ہے۔ ایک نیا فریج خریدنے کی ضرورت ہے لیکن پیسے نہیں ہیں۔ رام سنگھ تو ابھی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اس کے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن رام سنگھ کو یاد آیا کہ اس کے پاس مٹی کے بنے غلے تو ہیں جن میں وہ اپنے جیب کی رقم جمع کرتا آرہا تھا۔
رام سنگھ نے طئے کرلیا کہ وہ اپنے جمع غلے کے پیسوں سے اپنی ماں کے لیے تحفہ کے طور پر نیا فریج خریدے گا۔ رام سنگھ نے اخبار کے اشتہار میں دیئے گئے فون نمبر پر کال کی اور فریج کی قیمت معلوم کی تو پتہ چلا کہ نئے فریج کی قیمت 15,500/- روپئے ہے۔ قیمت معلوم کرنے کے بعد رام سنگھ نے اپنے غلے میں میں موجود سکوں کو گننے کا کام شروع کیا اور رام سنگھ کے غلے میں کتنے سکے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رام سنگھ نے پانچ سال کی عمر سے اپنے جیب خرچ کی رقم غلوں میں جمع کرنی شروع کی تھی اور آج رام سنگھ نے اپنے غلوں کو کھول کر رقم کو گننا شروع کیا تو اس کے سامنے پورے بارہ برسوں کی بچت سامنے تھی۔ رام سنگھ نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ ان سکوں کے علاوہ بھی جب اس کے پاس نوٹ کی شکل میں کچھ پیسے جمع ہوئے تو وہ ان نوٹوں کو اپنی ماں کے حوالے کردیتا اور صرف سکے اپنے پاس رکھ لیتا۔ گنتی پوری کرلینے کے بعد رام سنگھ کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس تو صرف 13,500 روپئے کی ہی رقم ہے۔ ان سکوں کو ایک تھیلے میں بھرکر رام سنگھ نے سیدھے اس شوروم کا رخ کیا جس کا اشتہار اس نے اخبار میں دیکھا تھا۔ شوروم کے مالک ہری کرشن کھتری کو تو پہلے یقین ہی نہیں آیا کہ ایک نوجوان تھیلے میں سکے لاکر ایک نیا فریج خریدنا چاہتا تھا لیکن رام سنگھ کی پوری کہانی سننے کے بعد شوروم کے مالک نے فریج کی قیمت سکوں میں قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ شوروم میں پہلے تو سکوں کے تھیلے کو تولا گیا تو اس کا وزن 35 کلو نکلا۔ پھر تھیلے میں صرف 5 اور 10 روپئے کے سکوں کو ہی گنا گیا اور بقیہ سکوں کی گنتی نہیں کی گئی۔ رام سنگھ کو کہدیا گیا کہ جو نوجوان اپنی ماں کو آرام دینے اپنے جیب خرچ کی رقم سے فریج خریدنے کے بارے میں سونچ سکتا ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔پھر رام سنگھ نے جتنی رقم بتلائی بقیہ سکوں کو اتنی ہی رقم مان لیا گیا۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ آگیا کہ فریج کی قیمت 15,500 روپئے ہے اور رام سنگھ کی جمع رقم 13,500 روپئے ہی ہے۔ ایک نوجوان کی اپنی ماں کو آرام دینے کی خواہش نے اور اپنے جیب خرچ کی رقم سے فریج خریدنے کی کوشش نے شوروم کے مالک کو بھی اتنا متاثر کردیا کہ اس نے رام سنگھ کے لیے خاص طور پر فریج کی قیمت میں 2 ہزار روپیوں کی رعایت دینے کا فیصلہ کیا۔اخبار ’’انڈین ایکسپریس ‘‘نے رام سنگھ کی ماں پپود یوی سے جب بات کی کہ اپنی سالگرہ کے موقع پر اس کو اپنے بیٹے کی جانب سے فریج کا گفٹ لے کر کیسا محسوس ہوا تو پپو دیوی نے اخبار کو جواب دیا کہ میرے بیٹے نے میری خواہش پوری کی اور مجھے یادگاری تحفہ دیا۔ میں تو خدا سے دعا کرتی ہوں تو وہ ہر ایک والدین کو ایسی اولاد دے۔
قارئین! فرمانبردار اولاد مانباپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ہوتی ہے اور اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ ایک طرف تو 13؍ اکتوبر کی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی خبر تھی، دوسری طرف 13؍ اکتوبر کو سوشل میڈیا اور یوٹیوب چیانل پر شہر حیدرآباد سے ایک خبر آئی اور بڑی تیزی کے ساتھ عوام میں گشت کرنے لگی۔خبر بڑی دردناک اور دل دہلادینے والی تھی۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ رچہ کنڈہ پولیس سے ایک ضعیف برقعہ پوش خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ رجوع ہوتی ہے اور شکایت درج کرواتی ہے۔ قارئین یہ ضعیف خاتون پولیس اسٹیشن کے باہر جب میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتی ہے تو ایسا لگ رہا تھا کہ بات کم کر رہی ہے اور رو زیادہ رہی ہے۔ خبر کا سب سے دردناک پہلو تو یہ تھا کہ جب بزرگ خاتون سے پوچھا گیا کہ وہ کس بات کی شکایت پولیس میں رجسٹرڈ کروانے آئی تھی تو اس نے بتلایا کہ وہ اپنے ہی بیٹے کے خلاف شکایت لے کر پولیس سے رجوع ہوئی ہے اور پولیس نے اس بزرگ خاتون کو کیا جواب دیا وہ جواب بھی خاتون بتلاتی ہیں کہ پولیس نے کہا کہ گھر کا جھگڑا گھر میں رکھو۔ مسلم برقعہ پوش خاتون کی شکایت ہے کہ ان کے اپنے ہی گھر میں ان کے اپنے ہی بیٹے اور بہو کے ہاتھوں انہیں تکلیف اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے اپنے ہی حقیقی بیٹے پر الزام لگایا کہ وہ انہیں گھر میں رکھ کر نہ صرف کھانے سے محروم رکھ رہا ہے بلکہ ان پر تشدد کرتے ہوئے دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اپنا گھر اس کے نام کردیں۔ سوشیل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس ویڈیو اور اس سے جڑی خبر پر ہر کوئی تبصرہ کر رہا ہے اور اس ضعیف خاتون کے بیٹے کو طرح طرح کے الزامات اور برے برے القابات سے نواز رہا ہے۔
قارئین ایک بیٹے نے اپنی ہی ماں کے ساتھ برا رویہ اختیار کیا۔ ایسا کوئی دوسرا واقعہ پیش نہ آئے اس کے لیے گالیاں نوازنا اور برا بولنا حل نہیں ہے۔ اول تو پولیس کے بیان کی روشنی میں اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہماری مساجد میں بھی جگہ فراہم ہونی چاہیے۔ دوم ہم خاندان اور اطراف و اکناف میں بچوں کی بہترین تربیت کو یقینی بنائیں تاکہ ایسا کوئی دوسرا واقعہ پیش نہ آئے جس میں ایک ماں کو اپنے ہی بچے کے خلاف پولیس میں حصول انصاف کے لیے رجوع ہونا پڑے۔
حالیہ عرصے میں ریاست تلنگانہ میں آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کے پیش نظر جب ٹی آر ایس حکومت نے ریاست کے سبھی اسکول و کالجس کے طلبہ کیلئے تعطیلات میں ایک ہفتہ کی توسیع کا اعلان کیا تو ایسی اطلاعات بھی تھیں جس کے مطابق بچوں کی تعطیلات میں اضافہ سے سرپرست بھی بڑے پریشان تھے کہ اب ان بچوں کو مزید ایک ہفتہ گھر پر کیسے گزارنا ہے۔ اس کا بندوبست کرنا پڑے گا۔بچوں کی تربیت کا کام کس قدر بڑی ذمہ داری ہے اور جب والدین ہی اس ذمہ داری سے گھبرائیں تو بچوں کی تربیت کون کرے گا؟ پولیس والے کہتے ہیں گھروں میں بچے بڑوں کیلئے مسائل پیدا کریں تو ان کا نہیں گھر والوں کا معاملہ ہے۔
نمازوں کے بعد اگر ہماری مساجد کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ مذہبی جماعتیں اگر مسلکوں کے نام پر بٹ جائیں۔ عام آدمی ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگے تو پریشان حال لوگ کدھر جائیں گے؟ ایسے سارے پس منظر میںآج سب سے بڑی ضرورت ہر مسلمان کو اس کے بنیادی کردار سے واقف کروانے کی ہے۔ ہر مسلمان گھر میں پیدا ہونے والا بچہ والدین کی سب سے پہلی، سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم اپنے سماج، والدین کو ان کی اس ذمہ داری کے متعلق مناسب اور موزوں تربیت کا سامان کر رہے ہیں۔ تعطیلات کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ موبائل فونس، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا مائوز یا ٹی وی کا ریموٹ تھمادینا ہے۔ تعطیلات کو غنیمت جانئے اور ہر ممکن کوشش کیجیے کہ ہم ساری دنیا کی نہیں بلکہ اپنے گھر کی اور اپنے بچوں کی اچھی تربیت کا فریضہ خود نبھائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی ملی، مذہبی، سماجی اور معاشی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا بنادے اور ہمیں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے والا بنادے اور اس کام میں ہمارت نصرت و مدد فرما۔ قبل اس کے کہ ہم اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)٭
[email protected]
