سید جلیل ازہر
سارے رشتے پیدا ہونے کے بعد بنتے ہیں، کائنات میں اس زمین پر ایک واحد ایسا رشتہ ہے جو ہمارے پیدا ہونے سے نو ماہ پہلے بن جاتا ہے۔ ’’ماں‘‘ سب وہی کھاتی ہے جس سے ہمیں نقصان نہ ہو، وہ بڑے بڑے درد بھی برداشت کرلیتی ہے مگر درد ختم کرنے کی دوا نہیں کھاتی کہ وہ دوا ہم کو نہ مار دے۔ ہم اس کی پسند کے کھانے چھڑا دیتے ہیں۔ ہم اس پر نیند حرام کردیتے ہیں، وہ کسی ایک طرف ہوکر چین سے نہیں ہوتی، وہ سوتے میں بھی جاگتی رہتی ہے۔ نو ماہ تکلیفوں سے گذارتی ہے۔ گرتی ہے تو پیٹ کے بل نہیں گرتی۔ پہلو کے بل گرتی ہے اور اپنی ہڈیاں تڑوالیتی ہے اور ہمیں بچالیتی ہے اور جب ہمیں جنم دیتی ہے تو قیامت سے گذر کر جنم دیتی ہے اور ہوش آتا ہے تو پہلا سوال ہماری خیریت کا ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے بعد وہ واحد ہستی ہے جو عیب چھپا چھپا کر رکھتی ہے۔ ایسی ہستی کے ساتھ آج کس انداز کے مظالم ہورہے ہیں، کہیں جائیداد کی تقسیم کے نام پر ماں کا ہی قتل کیا جارہا ہے تو کہیں بیوی کے اشارہ پر کچھ اولادیں اپنی ماں کو ایسے نظرانداز کررہی ہیں کہ ان سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہ ہو۔ ماں نہیں ہوتی جن کے پاس ان سے پوچھو، دکھ کسے کہتے ہیں۔ جو ماں سے محروم ہوجاتے ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کہا کھویا اور زندگی کے معنی ان کیلئے کیسے تبدیل ہوئے، ان آنکھوں نے والدین کو ستانے والوں کو بھی دیکھا ہے اور والدین کیلئے جمعہ کی نماز کے بعد قبرستانوں میں مغفرت کی دعا کرتے ہوئے ان بیٹوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب بھی دیکھا ہے کیونکہ جس کے قدموں کے نتیجے جنت رکھ دی گئی، ان قدموں سے راقم الحروف بھی محروم ہوگیاجس کا احساس ہر دن ستاتا ہے۔
کون دنیا میں سمجھتا ہے کسی اور کا دُکھ
ریل کا وزن تو پٹری کو پتہ ہوتا ہے
یاد رکھو! ماں باپ کی جتنی ضرورت ہمیں بچپن میں ہوتی ہے، اتنی ہی ضرورت ان کو بڑھاپے میں ہماری ہوتی ہے۔ ماں نہیں ہوتی جن کی اُن سے پوچھ دُکھ کسے کہتے ہیں۔ قدر تو وہ ہوتی ہے جو کسی کی موجودگی میں ہو، جو کسی کے بعد ہو اسے پچھتاوا کہتے ہیں۔ ماں کیا چیز ہے اس یتیم سے پوچھو جو روٹی کیلئے کام کرتا ہے، کھلونوں کی دُکان پر بار بار سوچو ان بچوں کے بارے میں جن کے والدین وقت سے پہلے دنیا سے جاچکے، ہم تازہ کھانے پر بھی گھر والوں پر برستے ہیں، ان کی سوچو جو باسی کھانے کو بھی ترستے ہیں۔ ماں کے ہاتھ کا کھانا جن کے مقدر میں نہیں، اس کا اندازہ کیسے لگاؤگے کیونکہ ماں کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کا ذائقہ کوئی بھی کبھی نہیں ہولتا۔ قارئین! ایک کہانی قلمبند کرنے جارہا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ یہ کہانی آپ کو زندگی کا ایسا سبق دے گی جو نہ صرف ماں کی محبت بلکہ دیگر رشتوں کے احساس کو سمجھنے میں بھی مددگار ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر اولاد ، ماں باپ کی نافرمان نہیں۔ سماج میں والدین کے لئے مرمٹنے اور ان کے دکھ درد میں اپنے آپ کو واقف کردینے والی اولادیں بھی ایک مثال بن کر اپنے ضعیف ماں باپ کی رات دن خدمت کررہی ہیں۔ اب اس کہانی کی طرف آتا ہوں جس سے کچھ تو احساس دلا سکوں کہ ماں اور رشتے کیا ہوتے ہیں۔ ایک نئی نویلی دلہن بیاہ کرکے اپنے شوہر کے گھر آئی اور والدین کی تربیت اس کی تعلیم اور سلیقہ نے سسرال میں اس کا اپنا ایک منفرد مقام بنا دیا۔ گھر کی تمام ذمہ داریاں اُٹھالیں اور شادی کے بعد پہلی مرتبہ کھانا بنایا، اتنا لذیذ اور مزہ دار تھا کہ اس کا شوہر اُنگلیاں چاٹنے لگا تاہم شوہر کے ایک فقرہ نے جیسے اس کا دل توڑ دیا۔ شوہر نے پکوان کی تعریف تو بہت کی لیکن یہ کہا کہ امی کے پکوان کا ذائقہ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ بات سن کر لڑکی نے زبان سے کچھ نہ کہا، اندر ہی اندر ایک مری ہوئی عورت سے مقابلہ کرنے لگی۔ جب بھی کوئی مہمان آئے تو لذیذ کھانوں کی تعریف کئے بناء نہیں رہتے پھر بھی شوہر کا کہنا کہ ماں کے ہاتھوں پکے ذائقہ دار کھانوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جلد ہی اللہ نے ان کو ایک بیٹے کی نعمت سے سرفراز کیا۔ دونوں میاں بیوی خوش تھے۔ مہمان آتے اور لذیذ کھانوں کی تعریف کرتے مگر شوہر کے وہی الفاظ نشتر بن کر چھبتے ، کبھی شوہر سے شکایت نہیں کی۔ ایک دن آخرکار اس کو اس کے سوال کا جواب مل ہی گیا۔ جب لڑکا بڑا ہوا تو اسکول میں داخل کروایا گیا۔ لڑکا ایک دن اسکول جارہا تھا۔ ماں نے طبیعت خراب ہونے کے سبب اپنے لخت جگر کو لنچ باکس کے بجائے کچھ پیسے دیئے اور کہا کہ بیٹے کینٹین سے کچھ خرید کر کھا لینا، بچہ اسکول سے گھر واپس آیا تو ماں نے کہا بیٹا کینٹین سے کیا کھائے تو بچے نے جواب دیا۔ ماں جب میں کینٹین جارہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے کہا کہ ہم ایک ساتھ میرے ٹفن سے کھالیتے ہیں۔ اتفاق سے میری پسند کی بھینڈی گوشت تھا۔ ماں نے پوچھا، کھانا کیسا تھا مزیدار تھا، ماں مگر آپ کے ہاتھ سے بنی بھینڈی گوشت کی بات نہیں تھی۔ یہ بات سن کر ماں کی آنکھ میں آنسو آگئے مگر آج اسے پتہ چل چکا تھا اور جواب بھی مل چکا تھا۔ دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کیلئے کھانا بناتی ہے تو اس کھانے میں اس کے ہاتھ کا نہیں ممتا کا بھی ذائقہ شامل ہوتا ہے۔ آج سماج میں والدین پر ہورہے مظالم سن اور دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ والدین کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے ذہنی اذیت دی جارہی ہے۔ کئی مقامات پر ضعیف ماں باپ کو مساجد کی کمیٹیوں اور پولیس سے رجوع ہوتے دیکھا جارہا ہے جو افسوسناک ہی نہیں شرمناک بات ہے۔ یاد رکھو! ماں ایک ایسا بینک ہے، جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کرواسکتے ہو، کبھی وقت ملے تو اپنے والدین کے چہروں کی طرف دیکھنا آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کا مستقبل بناتے بناتے وہ خود کتنا ٹوٹ چکے ہیں۔
شام ڈھلے اِک ویرانی سی ساتھ میرے گھر جاتی ہے۔ مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ’’ماں‘‘ مرجاتی ہے۔