2023 الوداع…نیا سال نئی امیدیں
راہول کی یاترا … رام مندر کا افتتاح
رشیدالدین
قدرت نے انسان میں ایسا وصف دیا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی پریشانی اور سانحہ سے ابھر سکتا ہے ۔ پُرامید ہونا یا پھر آشا وادی ہونا غموں اور دکھ سے نجات کا اہم ذریعہ ہے ۔ اگر انسان میں پُرامید ہونے کی صلاحیت نہ ہو تو ناامیدی اور مایوسی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے امید کو آدھی زندگی اور مایوسی کو آدھی موت قرار دیا ہے۔ کامیاب انسان وہی ہے جو تلخیوں کو بھلاکر کامیابی کی امید سے استقامت کے ساتھ جم جائے اور ایسے پر امید افراد کے قدم کامیابی چوم لیتی ہے ۔ سال 2023 ہم سے جدا ہورہا ہے اور 2024 کا ہم استقبال کر رہے ہیں۔ جب کبھی نیا سال دستک دیتا ہے تو ہر شخص اپنے سارے دکھ درد ، رنج و الم بھلا کر استقبال کرتا ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ نیا سال خوشحالی اور خوشخبری کی نوید ثابت ہوگا۔ انسانی فطرت کے عین مطابق ہم بھی سال 2024 ء کا استقبال کرتے ہیں۔ خدا کرے نیا سال ملک میں نفرت اور عداوت کا خاتمہ کرتے ہوئے محبت ، بھائی چارہ ، ترقی اور خوشحالی کا ضامن بنے ۔ یوں تو 2023 نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری اور ہزاروں افراد کے جاں بحق ہونے کی خونی داستان کے ساتھ رخصت ہورہا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ 2024 فلسطینیوں کے لئے حقیقی آزادی کا پیام لائے گا۔ ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے 2023 تبدیلیوں کا سال رہا۔ کئی ریاستوں میں اقتدار تبدیل ہوگیا۔ کانگریس اور بی جے پی کے لئے 2023 خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رخصت ہورہا ہے۔ کانگریس کو اروناچل پردیش ، کرناٹک اور تلنگانہ میں کامیابی ملی لیکن راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اقتدار ہاتھ سے نکل گیا ۔ بی جے پی کو کرناٹک سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن مدھیہ پردیش کو بچاتے ہوئے دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان تحفہ میں ملے۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے 20 سال تک اقتدار کا خواب دیکھنے والے کے سی آر کو 10 سال میں عوام نے گھر اور فارم ہاؤز واپس بھیج کر کانگریس کو حکمرانی کا موقع دیا۔ ریاستوں کی سطح پر نشیب و فراز سے ہٹ کر مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیں تو ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ ماب لنچنگ اور اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ نریندر مودی گزشتہ برسوں کی طرح جملہ بازی سے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھاتے رہے اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر چلائے گئے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی ۔ 2023 ء میں سیکولر اپوزیشن پارٹیوں نے انڈیا الائنس کے نام پر اتحاد کی پیشرفت کی ہے۔ ان کا اصل امتحان 2024 ء میں ہوگا ۔ 2023 ء میں غربت ، بیروزگاری اور بیماری جیسے مسائل بدستور برقرار رہے اور عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی اور خوشحالی نہیں آئی۔ کیا 2024 تبدیلی کا سال ہوگا؟ سیاسی ، سماجی اور معاشی سطح پر حالات کیا بدل جائیں گے؟ کیا مایوسی ، پرامیدی میں تبدیل ہوگی؟ قومی اور ریاستی سطح پر کیا انقلاب آئے گا ، اس پر ہر شہری کی نظر ہے۔ 2024 میں لوک سبھا کے عام انتخابات ہوں گے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی کے ساتھ کانگریس اپوزیشن کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ کیا مودی کی اقتدار کے لئے ہیٹ ٹرک ہوگی یا 10 سال بعد اقتدار کانگریس کے حصہ میں آئے گا ۔ 2024 کے آغاز کے ساتھ ہی بی جے پی اور کانگریس کی انتخابی مہم کا آغاز ہوگا۔ راہول گاندھی ملک میں دوسرے مرحلہ کی پد یاترا کا 14 جنوری سے آغاز کریں گے جبکہ 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہوگا۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس رام مندر کے علاوہ کوئی جذباتی مسئلہ نہیں جس کے ذریعہ ہندوؤں کے ووٹ متحد کئے جاسکیں۔ کیا راہول گاندھی کی ’’بھارت نیائے یاترا‘‘ ملک میں فرقہ پرستی کے سیلاب کو روک پائے گی؟ ویسے بھی عام آدمی مودی اور ان کی حکومت سے مایوس دکھائی دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پیٹ اور جیب خالی ہوں تو فرقہ پرستی سے بھوک کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ملک میں نریندر مودی کا جادو دم توڑنے لگا ہے اور ان کی جملہ بازی کا اثر زوال پذیر ہے۔ 2014 اور پھر 2019 میں کمزور کانگریس اور منتشر اپوزیشن کا مودی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ مختلف ریاستوں میں کامیابی کا بی جے پی پر الزام ہے۔ ظاہر ہے کہ 2024 عام چناؤ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین رہیں گے۔ مشینوں میں امکانی الٹ پھیر اور ٹیمپرنگ کو روکنے میں اپوزیشن کس حد کامیاب رہے گا۔ کانگریس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کے لئے نریندر مودی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ اپوزیشن میں پھوٹ کی سازش کے باوجود ابھی تک اتحاد قائم ہے۔ 2024 ء میں ملک کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کی نفرت کی سیاست سے نجات مل سکتی ہے اور عوام کے اچھے دنوں کا حقیقی معنوں میں آغاز ہوگا۔
ملک میں عام چناؤ اپریل یا مئی میں منعقد ہوسکتے ہیں اور اقتدار کی دوڑ میں شامل اہم پارٹیوں نے انتخابی مہم کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی نے راہول گاندھی کو دوسرے مرحلہ کی یاترا کے آغاز کا حوصلہ دیا ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بھارت جوڑو یاترا نے نہ صرف کانگریس کو مضبوط کیا بلکہ راہول گاندھی کی صلاحیتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران راست طور پر عوامی مسائل کا سامنا کرنے والے راہول گاندھی سیاست کے ایندھن میں تپ کر کندن بن چکے ہیں۔ یاترا کے بعد ناتجربہ کاری کے الزامات بند ہوچکے ہیں۔ 7 ستمبر 2022 ء سے 30 جنوری 2023 ء تک 150 دن میں راہول گاندھی نے 4000 کیلو میٹر کا احاطہ کیا۔ 12 ریاستوں اور 2 مرکزی زیر انتظام علاقوں میں راہول گاندھی نے عوام سے ملاقات کی۔ کرناٹک اور تلنگانہ کی کامیابی کو بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی سے مربوط کیا جارہا ہے ۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے نتائج نے کانگریس کو مایوس کردیا کیونکہ کانگریس کو چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کامیابی کا یقین تھا ۔ لوک سبھا چناؤ کی تیاری کے طورپر راہول گاندھی نے 14 جنوری تا 28 مارچ منی پور تا ممبئی بھارت نیائے یاترا کا فیصلہ کیا ہے۔ 65 دن میں 14 ریاستوں کے 85 اضلاع میں 6200 کیلو میٹر کا احاطہ کیا جائے گا ۔ راہول گاندھی کی یاترا کانگریس کو لوک سبھا چناؤ میں کس قدر فائدہ پہنچائے گی، اس کا اندازہ قبل از وقت ہوگا۔ دوسری طرف بی جے پی کی انتخابی مہم 22 جنوری سے شروع ہوگی جس دن ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح عمل میں آئے گا ۔ بی جے پی رام مندر کے سہارے تیسری مرتبہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ملک بھر سے ہندو تنظیموں کے قائدین کو ایودھیا مدعو کیا گیا ہے تاکہ ہندوؤں کی طاقت کا مظاہرہ ہو۔ بی جے پی نے رام مندر کے افتتاح کو لوک سبھا چناؤ سے محض اس لئے جوڑنا چاہا تاکہ مسلمانوں کے جذباتی ری ایکشن کا فائدہ اٹھایا جائے۔ رام مندر کے افتتاح کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی گئی لیکن مسلمانوں نے کامیاب حکمت عملی کے ذریعہ سنگھ پریوار کے منصوبے کو ناکام بنادیا۔ مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے خاص طور پر مومنانہ فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے افتتاح کے مسئلہ کو نظر انداز کردیا جس کے نتیجہ میں جذباتی مسئلہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو امید تھی کہ مسلمان مندر کی تعمیر کے خلاف جذباتی ردعمل دیں گے جس سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگی۔ جب کبھی فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوتا ہے ، راست فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کو حوالے کرنے کے بعد سے ہی مسلمانوں نے غیر معمولی صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوںکو کوئی موقع نہیں دیا۔ بی جے پی کو اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ رام مندر کے افتتاح کے باوجود ہندو متحد نہ ہوں تو پھر الیکشن کا کیا ہوگا۔ لوک سبھا چناؤ سے عین قبل انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں پرینکا گاندھی کو ملوث کیا ہے ۔ اراضی فروخت کے ایک معاملہ میں رابرٹ وڈرا کے ساتھ پرینکا گاندھی کا نام ایف آئی آر میں درج کیا گیا ۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی تحقیقاتی ایجنسی نے پرینکا گاندھی کو نشانہ بنایا ہو۔ الیکشن قریب آتے ہی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ تینوں ادارے بی جے پی کے اسٹار کیمپینر کی طرح ہیں جو مخالفین کو گھیرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی کارروائی دراصل پرینکا گاندھی سے بی جے پی کو خوف کا نتیجہ ہے۔ پرینکا گاندھی کے وارانسی میں نریندر مودی کے خلاف مقابلہ کی اطلاعات کے ساتھ ہی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی یہ کارروائی سیاسی انتقام دکھائی دے رہی ہے تاکہ کانگریس کیڈر کے حوصلے پست کئے جائیں۔ نئے سال کی آمد پر شاعر نے کچھ یوں دعا کی ہے ؎
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے