کوویڈ۔19 کیلئے تبلیغی جماعت کے بہانے مسلم قوم کے خلاف محاذ آرائی پر سابق مرکزی وزیر اقلیت کے رحمن خان کا شدید ردعمل
نئی دہلی ۔ 4 اپریل (ایجنسیز) ایک ایسے وقت جبکہ ملک اور پوری دنیا کورونا کے عذاب سے گزر رہی ہے، میڈیا اور کچھ لوگ تبلیغی جماعت حضرت نظام الدین کو کوویڈ۔19 کا ’ہاٹ اسپاٹ‘ (مرکز) قرار دینے میں توانائی صرف کرنے میں لگ گئے ہیں اور اس طرح مرکز نظام الدین کو بلی کا بکرا بنانے پر ایک ٹولہ سرگرم ہوگیا ہے۔ مسلم طبقہ اور ملک کے ہوشمند افراد و سماجی کارکنان اس خدائی عذاب کو ایک خاص مذہب سے جوڑنے پر سخت نالاں ہیں۔ سابق مرکزی وزیراقلیت کے رحمن خان نے اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہیکہ اس نازک موقع پر وبا کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بیماریاں مذہبی عقیدت کے ساتھ نہیں آتیں بلکہ اس کا شکار بلاتفریق ذات و مذہب کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ یوپی اے سرکار میں سابق مرکزی وزیراقلیت اور مسلم مسائل پر گہری نظر جناب رحمن خان نے اپنے ردعمل میں مزید کہا کہ وہ دیش کے مختلف مقامات پر لاکھوں کی تعداد میں پھنسے ہوئے مزدوروں کی بجائے مرکز نظام الدین کو نشانہ بنانے پر سخت نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ اب تک خبروں میں مرکز کی طرف سے آرہا ہیکہ انتظامیہ کو بروقت اطلاع دیدی گئی تھی جب وزیراعظم ’نئے لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوروز سے ہم ان لاکھوں مزدوروں کے بارے میں سن رہے تھے جو دیش کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اچانک وہ ساری خبریں میڈیا سے غائب ہوگئیں اور اب مرکز نظام الدین کوروناوائرس پھیلانے کا واحد ذمہ دار بن چکا ہے۔ خان نے کہا کہ خدا کیلئے ایسے وقت بیماری کو مذہبی رنگ دینے کی بجائے دیش کے عوام کی مشکلات کا حل تلاش کیا جائے۔ کے رحمن خان نے مرکز نظام الدین کی ایک طویل مذہبی اور سماجی تاریخ ہے، اچانک ہوئے لاک ڈاؤن سے جس طرح پورے ملک میں لوگ پھنس گئے ہیں یہاں بھی لوگ پھنسے ہوئے ہیں، اس خلاف ورزی کو اسی خانہ میں شمار کیا جاسکتا ہے جس طرح ملک کے مختلف حصوں میں بیچارے مزدوروں کے جماؤڑے سے ہورہی ہے، اس لئے خدا کیلئے لوگوں کے مسائل حل کریں اور بیماری کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ ’چھپے‘ ہوئے نہیں بلکہ بڑی تعداد میں دیگر لوگوں کی طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ بتادیں کہ 24 مارچ سے ہی مرکز نظام الدین پوری طرح بند کردیا گیا ہے۔ دوہزار افراد کو انتظامیہ نے پہلے ہی نکال لیا تھا جبکہ اس کے بعد ملکی و غیرملکی تقریباً 17 سو افراد یہاں پھنسے ہوئے تھے جن میں ہاسپٹلس کی رپورٹس کے مطابق دو درجن افراد متاثر ہیں۔