خدا کے گھر کو ناپاک کرنے والوں کی سزا

   

پروفیسر اپوروانند
ایودھیا میں نریندر مودی نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا اس موقع پر اپنے خطاب میں مودی کا کہنا تھا کہ برسوں سے ٹاٹ اور ٹنٹ کے نیچے رہ رہے ہمارے رام للا کے لئے ایک عظیم الشان مندر تعمیر ہوگا۔ ہم 5 اگست 2020 کی بات کررہے ہیں۔ اُس دن سارے ملک میں بہت جوش و خروش پایا گیا۔ کم از کم میڈیا میں تو غیر معمولی جوش و خروش دیکھا گیا۔ یہی کہا گیا کہ صدیوں کا خواب اب پورا ہو رہا ہے۔ مودی نے جس مندر کا سنگ بنیاد رکھا یہ رام کا مندر ہے یا بھکتوں کی کامیابی کی علامت کا مندر ہے اس مسئلہ پر ہمیں غور کرنا ہے۔ 5 اگست کی تاریخ دوسرے لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ 5 اگست کو ہندوستان کی ایک ریاست کی شان و شوکت کو تباہ و برباد کیا گیا اور جموں و کشمیر کو دو ٹکڑوں یا حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس سے ریاست کا درجہ چھین لیا گیا اور مرکزی زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کردیا گیا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ حسن اتفاق نہیں ہے کہ جس دن جموں و کشمیر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا اسی تاریخ کو یعنی 5 اگست کو ایودھیا میں رام مندر کے لئے سنگ بنیاد کی تقریب منعقد کی گئی۔ لوگوں میں یہ موضوع بحث بناہوا ہے کہ کیا اسے صرف رام مندر کہا جائے یا بھکتوں کا رام مندر پکارا جائے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دراصل ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ بابری مسجد کی جگہ پر بنا ہوا بھکتوں کا رام مندر ہے۔ یہ ساری بحثیں ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو بڑے دکھ اور درد سے یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ دراصل ہندوستانی جمہوریت کا اختتام ہے اور ہندوستانی جمہوریت دو کا جنم یا پیدائش ہے۔ بعض کی یہ رائے ہے کہ یہ حقیقت میں ہندو راشٹر کا یوم تاسیس ہے۔
تاہم 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ ہمارے لئے سوچ و فکر کا دن ہے۔ ساتھ ہی یہ ضمیر کو ٹٹولنے کا دن بھی ہے کہ آخر ہم ہندوستانی یہاں تک کیسے پہنچے لیکن مجھے 5 اگست کی تاریخ اور اس دن ایودھیا میں منعقد ہوئی تقریب پر غور کرتے ہوئے برسوں قبل پریم چند کی لکھی ہوئی کہانی یاد آگئی۔

اس کہانی میں مذہب اور تہذیب کے درمیان ایک رشتہ ہے چودھری عطرت علی پکے مسلمان ہیں لیکن ان کا ہندو مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ کوئی تناؤ یا کشیدگی نہیں ہے۔ پریم چند اپنی اس کہانی میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں، ایک مندر میں کچھ منچلے مسلمان گھس جاتے ہیں۔ اس وقت جنم اشٹمی منائی جارہی ہے اور یہ مسلمان مندر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کی اطلاع جب چودھری عطرت علی کو ملتی ہے جو گاؤں کے اثر و رسوخ والے آدمی ہیں اور سارے گاؤں پر ان کا رعب و دبدبہ بھی ہے۔ وہ بھجن سنگھ سے کہتے ہیں کہ ٹھاکر دیکھو تو ذرا یہ شیطانی کون کررہا ہے؟ اور اگر نامانے تو دو چار ہاتھ لگا دینا ۔ ہاں خیال رکھنا کہ خون خرابہ نہ ہو۔ جب بھجن سنگھ مندر پہنچتا ہے تو مندر میں حالات دیکھتے ہی اسے اپنی مالک کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے۔ وہ لاٹھی چلانا شروع کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے، کچھ لوگوں کے پیشانی پر لاٹھی لگتی ہے اور ایک آدمی گر جاتا ہے، اسی دوران چودھری عطرت علی بھی مندر پہنچ جاتے ہیں وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ جو زمین پر گرا ہوا آدمی ہے جس کی پیشانی سے خون بہہ رہا ہے وہ ان کا داماد ہے۔ اسے دیکھ کر چودھری عطرت علی بھجن سنگھ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ’’آہ… تونے کیا کیا، میرا چراغ ہی گل کردیا۔ یہ میرا داماد ہے۔ اس دوران عطرت علی کا داماد دم توڑ دیتا ہے یعنی چودھری عطرت علی کے داماد کا خون ان کے سب سے بااعتماد بحافظ بھجن سنگھ کے ہاتھ سے ہو جاتا ہے۔ یہ طے ہے کہ بھجن سنگھ کو قتل کی سزا ہوگی لیکن چودھری عطرت علی یہ کہہ دیتے ہیں کہ میں یہ مانتا ہوں کہ میرا داماد گناہ گار ہے کیونکہ اس نے ایک پاک جگہ کو ناپاک کرنے کا کام کیا ہے۔ اگر میں بھی ہوتا تو شاید اسے یہی سزا دیتا کیونکہ خدا کے گھر کو ناپاک کرنے کی سزا بس یہی ہے اور تمہارے ہاتھوں اس کا خون ہوگیا، ہوسکتا ہے میرے ہاتھوں بھی ہوجاتا۔ اس لئے یہ خون تو معاف ہوگا کیونکہ یہ خدا کے گھر کو ناپاک کرنے کی سزا ہے۔

چودھری عطرت علی بھجن سنگھ کو چھپا دیتے ہیں اور اسے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔ وہ بری ہو جاتا ہے، پھانسی سے بچ جاتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد بھجن سنگھ ہندوؤں کا لیڈر بن جاتا ہے، ہندو یہ مانتے ہیں کہ بھجن سنگھ نے کرشن کے مندر کی حفاظت کی ہے، وہ بھول جاتے ہیں کہ چودھری عطرت علی نے کرشن کے مندر کے تحفظ کا کام کیا ہے۔
کہانی کے دوسرے حصہ میں دوسرا واقعہ ہوتا ہے وہ یہ کہ چونکہ بھجن سنگھ ہندوؤں کا لیڈر بن چکا ہوتا ہے اور ہندوؤں میں جوش ہے، اگلی جنم اشٹمی کو جلوس نکالتے ہیں، مسجد کے سامنے باجا بجاتے ہیں، مسلمان اعتراض کرتے ہیں، لیکن ہندوؤں کا جوش بڑھ جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم باجا ضرور بجائیں گے، اس کے بعد بات بڑھ جاتی ہے، پھر پتھراؤ ہوتا ہے، ہندو مسجد میں گھس جاتے ہیں اور توڑ پھوڑ شروع کردیتے ہیں، جوں ہی عطرت علی کو خبر ہوتی ہے کہ اس میں بھجن سنگھ کا اہم کردار ہے تو وہ بھجن سنگھ کو فوری طلب کرتے ہیں۔ اپنے مالک کے سامنے حاضر ہوکر بھجن سنگھ اعتراف جرم کرتا ہے۔ چودھری عطرت علی کہتے ہیں اس کی سزا کیا ہے؟ تمہیں یاد ہے، تم نے میرے داماد کا قتل کیا میں نے تمہیں معاف کیا۔ اس نے خدا کے گھر کو تباہ کیا تھا کیا تمہیں اب وہ سزا نہیں دی جانی چاہئے جو میرے داماد کو ملی ہے؟ بھجن سنگھ اس سزا کو قبول کرتا، کمزور نحیف چودھری عطرت علی تلوار ہاتھ میں لئے آگے بڑھتے ہیں لیکن تلوار ان کے ہاتھ میں نہیں سنبھل پاتی، دوسری طرف بھجن سنگھ کے دل میں دکھ ہے، پچھتاوا ہے لیکن ڈر نہیں ہے، آخر میں وہ کہتا ہے مالک آپ سے یہ تلوار نہیں اٹھے گی، اور اگر یہاں یہ ہوا تو دوسرا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ آپ کو جو چاہئے وہ کل صبح آپ کو مل جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔ کہانی یہاں اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ پریم چند جو کہہ رہے ہیں وہ بات بالکل صاف ہے، وہ چاہے مندر ہو اسے ناپاک کرنا یا خدا کے گھر مسجد کو ناپاک کرنا دونوں کی سزا ایک ہے۔

پھر اگر سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ 1949 کو ایک مسجد کو ناپاک کیا گیا تھا اس میں غلط طریقہ سے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں یعنی سپریم کورٹ کہہ رہا ہے مسجد کو ناپاک کرنا ایک جرم تھا۔ یہ بھی عدالت کہہ رہی ہے، وہی عدالت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ 1992 کو لاکھوں لوگوں کو جمع کرکے 450 سال سے بھی زیادہ پرانی مسجد کو جو گرایا گیا وہ ایک جرم تھا۔ وہی عدالت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ خدا کے گھر کو ناپاک کرنے کی سزا کیا ہونی چاہئے؟ کیا وہ سزا ان مجرمین کو ملی ہے؟ ان عدالتوں کو یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ آخر 6 دسمبر 1992 کو لاکھوں لوگ وہاں اکٹھے کیسے ہوسکے؟ کیا اس عدالت کو یقین تھا کہ جو حلف نامہ اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اس کے بعد مسجد کو بچایا جائے گا؟ ایک پاک جگہ کو تباہ و برباد کرکے رام کے نام پر جو عمارت کھڑی ہوگی وہ کیا دھرم کی جگہ ہوگی یا پوتر جگہ ہوگی اس پر ہم سب کو سوچنا ہوگا؟