خرد کو غلامی سے آزاد کر،جوانوں کو پیروں کا استاد کر

   

محمد مبشر الدین خرم
بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد ملک میں جس طرح کے حالات پیدا ہورہے ہیں ان میں مایوسی پیدا ہونا فطری ہے لیکن حوصلہ کو جواں رکھتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنا لازمی ہے ۔ اس صورتحال فیض احمد فیض کی نظم :
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچوں اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھرپایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے
اسی طرح علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ ’’جس میں نہ ہوانقلاب موت ہے وہ زندگی‘‘ شاعر مشرق اور فیض احمد فیض کے نظریہ ٔ انقلاب میں کافی فرق ہے لیکن دونوں نے ہی روح امم کی حیات کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور موجودہ حالات میں امت مسلمہ کو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیوں کے ذریعہ ہی حالات سازگار بنایا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اور ہم تمہیں خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو‘‘۔ان حالات میں کمربستہ ہونے اور مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے رجوع الی اللہ ہونے کے ساتھ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے اور حکمت عملی کی تیاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ مسلمانوں کے مستقبل کو تاریک کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہندستان کے حالات جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ان حالات میں مایوسی اور ضعف کا شکار قیادت کو تبدیل کرتے ہوئے ایسی فکر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو کہ آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑنے والی نہ ہو بلکہ اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرے لیکن مستقبل کی تعمیر کے نام پر نہ ہی شدت پسندی کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی لادینیت کے فروغ کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں کیونکہ ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں اس معاشرہ میں اپنے طرز عمل اور احکام الہیٰ و سنت رسولﷺ کے ذریعہ بہترین اشاعت و دعوت کا کام اب بھی ممکن ہے اگر شدت پسندی کے ساتھ تمام معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کے خدشات ہیں جبکہ اگر ہم نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں صبر آزما حالات سے نمٹنے اور ان حالات میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی مکمل تعلیمات مل جائیں گی۔ مکی زندگی میں حکمت کے تحت جو اسوہ اختیار کیا گیاتھا اس کے نام پر بزدلی اختیار کرنے والوں اور مایوسی پیدا کرنے والوں سے بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ مکی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے مسلسل ظلم برداشت کیا جاتا رہے اور صلح‘ معرکات اور غزوات کو مکمل طور پر فراموش کردیا جائے ۔
گیان واپی مسجد کا مسئلہ کوئی نیامسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی تاریخی اہمیت ہے لیکن تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے گیان واپی مسجد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس طرح کے ردعمل فریقین کے سامنے آرہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جو فریق حق پر ہے وہ حق پر ہونے کے باوجود دفاعی مؤقف اختیار کئے ہوئے ہے اور مسلم تنظیموں و اداروں کے ذمہ داروں کی جانب سے حقائق کو پیش کرنے میں جو تامل سے کام لیا جا رہاہے وہ ان کی کمزوری کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے ۔گیان واپی مسجد کے سروے کے دوران مبینہ طورپر پائے گئے شیولنگ کے متعلق ٹیلی ویژن چیانل پر جاری مباحث کے دوران جب اس کی حقیقت کو مسلم فریق کی جانب سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت اکثریتی طبقہ کے فریق نے یہ کہا کہ ’’شیو لنگ کو فوارہ قرار دیتے ہوئے ہندؤوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہاہے‘‘ ذرائع ابلاغ ادارو ںکی جانب سے بھی اس مسئلہ کو جس اہمیت کے ساتھ پیش کیاجا رہاہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں اور مباحث میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم فریق حقائق پیش کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔مباحث میں 100کروڑ کے عقائد کا حوالہ دیا جا رہاہے اور مبینہ شیو لنگ کی حقیقت اور اسے فوارہ کہے جانے پر باطل کے نمائندے چشم نم کے ساتھ جذبات مجروح ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
بابری مسجد معاملہ میں جس انداز میں مقدمہ کی کاروائی چلائی گئی اس سے ہر کوئی واقف ہے اور بیشتر تمام قائدین اور تنظیموں کو اس بات کا احساس ہے کہ گیان واپی مسجد معاملہ میں اسی طرز سے کاروائی چلائی جائے گی اور اب یہ مسئلہ محض بابری مسجد یا گیان واپی کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب تو متھرا میں کرشن جنم ستھان‘ جامع مسجد ٹیپو سلطان ‘ جامع مسجد دہلی کے علاوہ ٹیلے والی مسجد لکھنؤ اور دیگر مساجد تک پہنچ چکا ہے ایسے میں تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داروں کو انقلابی تبدیلی کے ذریعہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی اگر عدالت پر انحصار کی ہی پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں بابری مسجد ‘ طلاق ثلاثہ ‘ حجاب کے علاوہ کئی معاملات میں فیصلے ہمارے سامنے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاسکتا‘‘اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوبارہ اسی سوراخ سے ڈسے جانے کے لئے تیار رہنے کے بجائے نوجوان قیادت کی تیاری کو ترجیح دیں کیونکہ شائد ان کا ضعف قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کی اجازت نہ دے رہا ہو یا ان کے آرام میں انہیں خلل کا خدشہ ہو تو کم از کم یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کی ناکام کوشش نہ کریںکیونکہ ان کی یہ ناکام کوششیں امت کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں۔ بابری مسجد مقدمہ میں ہونے والی ناکامی کے سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں کی جانب سے یہ کہا جا تا رہا ہے کہ بورڈ کو اس مقدمہ میں شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ فریق مخالف نے اس مقدمہ میںشواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے اور جب یہ بات مانتے ہیں تو بورڈ کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ بھی فریق مخالف کے انداز کا جائزہ لیں اور اس بات کو تسلیم کریں کہ فریق مخالف نے کورٹ پر مقدمہ جیتنے سے قبل روڈ پر اپنے مقدمہ کو فیصل کروایا تھا ۔
گیان واپی مسجد تنازعہ کو دوبارہ زندہ کرنے سے پہلے حجاب‘ حلال ‘ لاؤڈ اسپیکر جیسے معاملات کو چھیڑتے ہوئے نبض ٹٹول لی گئی اور پھر گیان واپی کے ساتھ ساتھ کئی ایک مساجد کے تنازعہ کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے ملک میں اضطراب کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے ۔ اس اضطرابی کیفیت اور صورتحال میں محض مذہبی مقامات کے متعلق 1991کے قانون کی برقراری اہمیت کی حامل نہیں رہ گئی بلکہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت میں پیدا ہونے والے خوف کے ماحول کو دور کرنے کی بھی ذمہ داری علمائے اکرام ‘ سیاسی قائدین ‘ عمائدین ملت اسلامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ کس طرح سے امت کو مایوسی سے بچاتے ہوئے ان کے حوصلہ میں اضافہ کیا جائے۔ملک کی آزادی میں مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور وہ قربانیاں دینے والے کوئی اور نہیں تھے ۔ حکیم الامت نے کہا تھا کہ :
تھے تو آباء و تمہارے ہی مگر تم کیا ہو!
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو…
ملک میں ’’دین بچاؤ دستور بچاؤ‘‘ تحریک کے کیا اثرات ہوئے اس سے سب واقف ہیں اورمسلسل کوششوں کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں لیکن اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو سی اے اے‘ این آر سی احتجاج کا باریکی سے مشاہدہ کرتے ہوئے جائزہ لینا چاہئے کیونکہ بابری مسجد ‘ طلاق ثلاثہ کے علاوہ دیگر امور میں بورڈ کی ناکامی اور ان ہی حالات میں غیر منظم جہدکاروں ‘ خواتین اور نوجوانوں کی قیادت میں کی گئی سی اے اے اور این آر سی معاملہ میں حاصل ہونے والی ظاہری ہی سہی کامیابی کس طرح سے ممکن ہوپائی اور کیونکر ملک کی کئی ریاستوں کی جانب سے اس قانون کے خلاف اسمبلیوں میں قرارداد منظور کی گئی !پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ دار اگر اپنی نگرانی میں نوجوان نسل کی ہاتھوں قیادت سونپ کر ان کے حق میں دعاء گو رہتے ہیں اور نوجوانوں کو کوشش پر مائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں زمینی حالات تبدیل ہونے کے علاوہ امت مسلمہ کے اعتماد میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں حکمت‘ مصلحت ‘جذبات اور جواں حوصلہ کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ ’’دین بچاؤ دستور بچاؤ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی مہم بھی چلائی جاسکتے۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر