خوابوں کی شادی یا دکھاوے کی نمائش

   

دو دلوں کا میل سماجی میلہ میں تبدیل
رشتے رسموں میں دفن ہورہے ہیں
ایک بامقصد زندگی کا آغاز سادگی سے ہو تو اس کی بنیادیں مضبوط ہوگی
ایک دن کی چمک نہیں بلکہ عمر بھر کا سکون اصل کامیابی
کئی جوڑے اپنی نئی زندگی کا آغاز قرض میں ڈوب کر کررہے ہیں

محمد نعیم وجاہت
شادی جو کبھی سادگی محبت اور برکت کی علامت تھی آج ایک سماجی اسٹیٹس ، دکھاوے اور بے جا اخراجات کا میدان بن چکی ہے ۔ برصغیر کی روایات میں شادی صرف دو افراد کا ملن نہیں بلکہ دو خاندانوں کا اتحاد سمجھتی جاتی ہے ۔ لیکن گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس مقدس بندھن پر بے شمار بیجا رسومات اور روایات کا بوجھ ڈال دیا جارہا ہے جو شادی کوآسانی سے زیادہ ایک امتحان بناچکی ہیں۔ ان فرسود رسومات کے نتیجے میں شادی ایک سماجی ایونٹ ’’ایک شو کیس ‘‘ بننے کے ساتھ مالی چیلنج بن چکی ہے۔ خاص طورپر شہری معاشرے میں شادی کی تقریب رسموں کی اصل روح سے زیادہ ایک ایسا میدان بن چکی ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے برتری کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ شادی اب صرف نکاح یا رخصتی کا نام نہیں رہی بلکہ اس سے منسلک کئی تقریبات مثلاً مہندی ، فنکشن ہال ، کیٹرنگ ، لائیو میوزک برانڈیڈ ملبوسات ، سونے کے زیورات ، عالیشان جہیز ، فوٹو گرافی ، ویڈنگ شوٹنگ مہمانوں کی مہمان نوازی وغیرہ ایک ایسا دباؤ بن چکی ہے جس سے بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے ۔ یہاں تک کہ متوسط طبقہ بھی مجبور ہوچکا ہے کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کرے ۔ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے کہ معاشرہ کیا کہے گا ؟ اس سوچ و فکر میں والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی شادی پر خرچ کردیتے ہیں اور بعض اوقات وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں ۔
شادی کے رسم و رواج سماجی لعنت میں تبدیل ہورہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی جوڑے اپنی زندگی کا آغاز ہی قرض میں ڈوب کر کرتے ہیں ۔ معاشرے کو اس رجحان پر سونچنے اور اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شادی کا دن ایک مقدس اور روحانی آغاز ہونا چاہئے نہ کہ دکھاوے کا میدان ہو ۔ اگر ہم سادگی کو فروغ دیں تو نہ صرف مالی دباؤ کم ہوگا بلکہ خلوص اور محبت کی بنیاد بھی مضبوط ہوگی ۔ آج کل کی شادیوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات اور سماجی تقاضے نوجوانوں کیلئے ایک نفسیاتی اور معاشی مسئلہ پیدا کررہے ہیں ۔ اس رجحان کو روکنے کیلئے اجتماعی سوچ ہونی چاہئے ورنہ رشتے رسموں میں دفن ہوجائیں گے ۔
شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے کئی اضلاع میں نوجوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں اور کئی لڑکیوں کی شادی کرنے کی عمر نکلتے جارہی ہے ۔ بیچاری ان لڑکیوں کا صرف اتنا قصور ہے کہ ان کے والدین غریب ہیں، شادی کیلئے جہیز کے مطالبات کو پورا نہیں کرسکتے ۔ بعض ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں لڑکیاں زیادہ تعلیمیافتہ ہیں یا ملازمت پیشہ ہے وہ اور ان کے ارکان خاندان اسی مناسبت سے شادی کرنا چاہتے ہیں مگر مناسب جوڑ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی بھی شادیاں نہیں ہورہی ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کو آسان بنانا چاہئے ۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے۔ نہ قیمتی زیورات ، نہ شاندار ولیمہ اور نہ ہی غیرضروری رسمیں۔ قرآن و سنت ہمیں سکھاتے ہیں کہ شادی کو ریاکاری سے پاک رکھنا چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بابرکت شادی وہ ہے جس میں کم خرچ کیا گیا ہو ۔ اب وقت آچکا ہے ہم اجتماعی طورپر شعور بیدار کریں۔ کچھ خاندان اس پیغام کو اپنانے لگے ہیں۔
بنگلور کے ایک مسلم جوڑے نے حال ہی میں سادگی سے مسجد میں نکاح کیا اور ولیمہ کا خرچ ایک یتیم خانے کو عطیہ کردیا ۔ اس عمل نے معاشرے کو ایک مثبت پیغام بھی دیا ہے ۔ میڈیا کو چاہئے کہ ایسے سادہ اور متاثرکن نکاح کی زیادہ تشہیر کریںتاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچ سکے۔ علماء مساجد میں خطبات کے ذریعہ لوگوں کو فضول خرچی سے بچنے کی ترغیب دیں۔ اسکولس اور کالجس میں اس تعلق سے شعور بیداری پروگرامس اور ورکشاپس کا اہتمام کریں۔ شادی زندگی کا سنگ میل ہے ۔ لیکن یہ تبھی بابرکت بنے گی جب ہم اسے سادگی اور اخلاص کے ساتھ انجام دیں گے ۔ ہمیں لڑکی یا لڑکے والوں پر مالی بوجھ ڈالنے کے بجائے باہمی تعاون ، احترام اور محبت کو فروغ دینا ہوگا ۔
شادی کوئی نمائش نہیں ہے ۔ یہ زندگی کی ایک خوبصورت شروعات ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں خوشحال رہے تو ہمیں فضول خرچ سے آزاد شادیوں کو فروغ دینا ہوگا ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں شادیوں کے اخراجات میں زبردست اضافہ ہورہا ہے ۔ Wedding Wire India کے تازہ ترین سروے میں شادیوں کے اخراجات کے بارے میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ شادی کے تمام اخراجات میں 20 فیصد اخراجات صرف شادی خانوں (فنکشن ہالس ) کے ہیں ۔
سال 2023 ء میں ایک شادی خانہ کا اوسطاً کرایہ 4.70 لاکھ روپئے تھا جو فی الحال بڑھ کر 6 لاکھ روپئے سے زیادہ ہوگیا ہے ۔ بعض شادی خانوں کے کرائے 7.5 لاکھ روپئے سے 10لاکھ روپئے تک بھی پہونچ گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک شادی پر 30 تا 50 لاکھ روپئے خرچ ہونے کا سروے میں انکشاف ہوا ہے ۔ شادی کی تقریبات کم از کم تین تا چار دن تک جاری رہتی ہیں ۔ شادیوں میں بہت زیادہ اخراجات کا رجحان دیہاتوں تک پہونچ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عوام کو فضول خرچی سے ڈر نہیں لگ رہا ہے ۔ نمائش اور دکھاوے کیلئے بڑے سے بڑا قرض لینے پر بھی آمادہ ہورہے ہیں ۔ معاشرے میں جہیز اور فضول خرچی کی وجہ سے شادی کے اخراجات میں اضاف ہورہا ہے ۔ پکوان کی ہمہ اقسام ڈیشیس بھی فیشن بن رہی ہیں۔
شادی کے دعوت ناموں پر بھی خاص توجہ دی جانے لگی ہے ۔ اس نئے رجحان کی وجہ سے( رقعے ) دعوت نامے ڈیجیٹل بن رہے ہیں ۔ سال 2024-25 ء میں ملک کی ریٹیل مارکیٹ میں شادی کی مارکیٹ 11 لاکھ کروڑ روپئے سے تجاوز کرتے ہوئے دوسری بڑی مارکیٹ میں تبدیل ہوگئی ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ شادیاں ہورہی ہیں۔ شادیوں کی فضول خرچی پر سنجیدگی سے غور کرنے کاوقت آگیا ہے ۔ اس کے لئے ہر کسی کو پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر دلہا دلہن خود نہیں جانتے کہ دعوت میں کون آرہا ہے ۔ مگر والدین ، سماج اور دفتر کے تعلقات کی مجبوریوں کے باعث مہمانوں کی فہرست طویل ہوجاتی ہے۔شادی کے اصل لمحات جنھیںمحسوس کرنا چاہئے وہ ان کیمروں اور ڈرونز کی نظر سے قید کئے جارہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شادیوں کو اصل مقصد کی طرف لوٹائیں۔ سادگی ، اخلاص اور باہمی سمجھداری کو فوقیت دیں نہ کے مقابلہ بازی ، دکھاوا اور قرض میں ڈوبے ہوئے وعدے ہوں ۔ ایک بامقصد زندگی کا آغاز سادگی سے ہو تو اس کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے ۔ یاد رکھیے ایک دن کی چمک نہیں بلکہ عمر بھر کا سکون اصل کامیابی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ کئی جوڑے اپنی نئی زندگی کا آغاز قرض میں ڈوب کر کررہے ہیں۔