خواتین تحفظات بل ‘ صنف نازک سے مودی کا مذاق

   

او بی سی اور اقلیتیں نظرانداز

روش کمار
اس وقت سارے ملک میں خواتین تحفظات کے چرچے ہیں اور اس کا کریڈٹ حکمراں بی جے پی خاص طور پر وزیراعظم لینے کی جان توڑ کوشش کررہے ہیں، ویسے بھی جملہ بانٹنے کی حد ہوتی ہے۔ خواتین تحفظات بل میں او بی سی یا اقلیتی خواتین کیلئے کوئی کوٹہ نہیں ہے۔ او بی سیز خواتین کا کوٹہ نہ ہونے سے احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا ہے۔ سماج وادی پارٹی، آر جے ڈی ، بی ایس پی اور کانگریس تمام نے اس کی مخالفت کی ہے۔ یہی نہیں خواتین تحفظات بل کا بھی نفاذ عمل میں نہیں آئے گا، یہ بل میں ہی لکھا ہوا ہے۔ یہ لکھا ہے کہ جب نئی مردم شماری ہوگی تمام پارلیمانی نشستوں کی حد بندی ہوگی تب جاکر خواتین تحفظات پر عمل آوری ہوگی یا اس کا نفاذ عمل میں آئے گا۔2026 میں جب پارلیمانی حلقوں کی موجودہ حد بندی کی مدت ختم ہوگی اس کے بعد خواتین تحفظات لاگو ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذاق اچھا ہے۔ یہی حال آپ کو یاد دلاتا ہوں شہریت ترمیمی قانون کے ساتھ ہوا۔ 2019 میں شہریت ترمیمی قانون کسی طرح منظور کروایا گیا لیکن ابھی تک یہ قانون نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ منظور ہونے کے بعد بھی یہ قانون لاپتہ ہے۔ واضح اکثریت کے گھمنڈ کے نشہ میں دھت مودی سرکار بھی اپنے بل میں او بی سی کی خواتین اور اقلیتی خواتین کو تحفظآت نہیں دے سکی۔ ہر چیز کو ایک ایونٹ یا واقعہ میں تبدیل کرنے والی حکومت کا شامیانہ بناء آندھی اور بارش کے اُجڑ گیا۔ اس بل کا جتنا خیرمقدم نہیں ہوگا اس سے کہیں زیادہ مخالفت ہوگی۔ آخر او بی سی خواتین اس بل کو کیسے قبول کریں گی۔ اس کے ساتھ حکومت نے ملک کے عوام کو یاد دلادیا کہ دس سال نئی مردم شماری کا کام نہیں ہوا۔ جب اس بل کو 4 یا 5 سال بعد نافذ ہونا ہے تو ذرائع کے حوالے سے اتنا ماحول کیوں بنایا گیا ؟ کیا اس لئے کہ دو تقاریر کرنے کے بعد ایک اور تقریر کرنے کا موقع ملے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ خصوصی اجلاس وزیر اعظم کے خصوصی خطاب کا اجلاس ثابت ہونے جارہا ہے۔ خصوصی اجلاس تو چلا لیا گیا اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ آخر کرنا کیا ہے؟۔18 ستمبر کے درمیان ایوان میں وزیر اعظم کے دو، دو خطاب ہوگئے ہیں ۔ ذرا سوچیئے تو سہی کہ کیا 18 ستمبر کو کچھ کہنے میں کمی رہ گئی تھی ؟ جو 19 ستمبر کو بھی انہوں نے ایک طویل خطاب کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کو وزیراعظم کے کلاس روم میں بدل دیا گیا ہے جبکہ اسی ایوان میں ان کا ریکارڈ ہے کہ معمول کے جواب کے علاوہ صرف دو وقت ہی جواب دیتے آئے ہیں۔ راجیہ سبھا میں ملکارجن کھرگے نے یہ بات کہی ہے۔ 18 ستمبر سے ہی ماحول بنایا جارہا ہے۔ خواتین میں اُمیدیں پیدا کی جارہی ہیں لیکن نکلا کیا یہی کہ 2024 کے عام انتخابات سے خواتین تحفظات بل لاگو نہیں ہوگا۔جب یہی کرنا تھا تو اس سے پہلے کرلیتے۔ ایک بات ضرور ہے کہ بی جے پی کے خیمہ میں خواتین کی پوجا کرنے والے کیسے کیسے رہنما ہیں اس بل کا نام ہی ویمن پاور ورشپ بھی رکھ دیا گیا ہے۔ آسام کے چیف منسٹر ہیمنتا بسوا شرما نے کہا ہے کہ وہ کمل ناتھ کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر کمل ناتھ سچے ہنومان بھگت ہیں تو 10 جن پتھ کو جلادیں۔ آپ جانتے ہیں کہ 10 پتھ سونیا گاندھی کی قیامگاہ ہے۔ 76 سالہ سونیا گاندھی رکن پارلیمنٹ ہیں اور ایک ریاست کے چیف منسٹر اپنی سابقہ پارٹی کی سابق صدر اور رہنما کا گھر جلانے کی بات کھلے عام کررہے ہیں۔ ایک ریاست کا چیف منسٹر ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کا گھر جلانے کا چیلنج دے رہا ہے۔ کیا سچا ہنومان بھگت ہونے کی یہی نشانی بچ گئی ہے کہ کمل ناتھ اپنی پارٹی کی لیڈر کا گھر جلادیں۔ خواتین چاہے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہیں یا معاشی طور پر پسماندہ طبقات سے ان کا تعلق ہو یا ذات پات کے لحاظ سے آخری درجہ پر ہوں، مردوں کے سماج میں سب کی الگ ہی جدوجہد ہے، کسی کا دوہرا ہے تو کسی کا غریبی اور ذات پات کے باعث سہ رُخی ہے۔ جس وقت سے خواتین کو سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانے کی خبریں آرہی ہیں اسی وقت ان کی معاشی حالات خستہ ہونے کی بھی رپورٹس آرہی ہیں۔
’ فینانشیل اکسپریس‘ کی ایک رپورٹ مورخہ 19ستمبر 2023 یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں گھریلو بچت 50 سال کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مالی سال 2022 میں یہ جی ڈی پی کا 7.2 فیصد تھی۔ مالی سال 2023 میں گھٹ کر5.1 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ریزرو بینک آف انڈیا نے جاری کئے ہیں۔ اس دوران گھریلو قرض کا بوجھ بھی بڑھتا جارہا ہے یعنی عام ہندوستانی شہریوں کے گھر قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواتین پر اس کا کتنا اثر پڑتا ہوگا یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ میڈیا میں جتنا چاہے اُچھل کود کرلیجئے گھر کی تجوری خالی ہے اور قرض کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کہہ رہا ہے کہ EMI نہیں دینے والوں کو یاد دلانے کیلئے چاکلیٹ بھیجیں گے۔ ذرا سوچیئے کہ 50 سال میں گھریلو بچت اتنی کم کبھی نہیں ہوئی، اس کی کوگی فلاش کوئی خبر نہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا ہے؟۔ سیاست میں جذبات اور مذہب اسی وجہ سے زیادہ ہے کیونکہ معاشی حالات کو لیکر ڈھول بچانے کیلئے اب ڈھول ہی نہیں بجا ہے بلکہ پھٹ چکا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ گیس سلینڈر کی قیمت 2 سو روپئے کم کی جاتی ہے تو ڈِھنڈورا پٹوایا جاتا ہے۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ لوگوں کا پیسہ کہاں جاتا ہے؟ گھریلو بچت کے 50 سال میں سب سے کم سطح پر پہنچنے سے خواتین پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہوں گے۔ اب چلتے ہیں خواتین تحفظات بل کی طرف، 18 ستمبر کی شام پرہلاد سنگھ پٹیل نامی ایک مرکزی وزیر نے ٹوئٹر یعنی X پر اس کا اعلان کیا اور پھر اسی اعلان یا ٹویٹ کو حذف بھی کردیا۔ پارلیمنٹ کے احاطہ میں خواتین کی کثیر تعداد بتاتی ہے کہ ذرائع کے حوالے سے آئی خبر صحیح ہے۔ یہ تمام خواتین ایوان کی وزیٹرس گیلری میں بیٹھنے جارہی تھیں تاکہ خواتین تحفظات بل کی اس نئی تاریخ کا گواہ بن سکیں لیکن انہیں بھی پتہ نہیں ہوگا کہ جس بل کو تاریخ بنتے دیکھنے آئی ہیں وہ بل 2026 سے پہلے تو لاگو ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ جو قانون ابھی تین چار سال بعد نافذ ہوگا اس کے منظور ہونے پر تالیاں بجانے کیلئے ان خواتین کو بلایا گیا ہیں۔9 مارچ 2010 کو یو پی اے حکومت نے خواتین تحفظات بل کو راجیہ سبھا میں منظور کروایا تھا مگر لوک سبھا میں منظور نہیں ہوا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اس بل میں ایس سی، ایس ٹی خواتین کیلئے تحفظات کا کوٹہ تو تھا لیکن او بی سیز خواتین کیلئے تحفظات نہیں تھے۔ اُمید تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے بل میں او بی سیز خواتین کو تحفظات فراہم کریں گے مگر اس میں تو او بی سیز کا ذکر بھی نہیں ہے۔ کانگریس نے ایک نہیں بلکہ کئی بار کہا کہ حکومت جس شکل میں بھی بل لائے گی غیر مشروط طور پر کانگریس اس کی تائید کرے گی لیکن کیا کانگریس اب اس بل کی تائید کرپائے گی۔
اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل باقی جماعتوں کے احتجاج کو نظرانداز کرپائے گی کہ اس بل میں او بی سی خواتین کیلئے تحفظات کا کوٹہ نہیں ہے۔ اس بل کے مسودہ پر 128 ویں دستوری ترمیم لکھا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے ناری شکتی وندن بل کہا ہے ۔ کیا واقعی وزیر اعظم کی ان باتوں میں آپ کو کچھ عجیب نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا کہ 19 ستمبر کی یہ تاریخ لازوال ہونے جارہی ہے۔ اس میں لازوال کیا ہے، تاریخی کیا ہے، اس میں کچھ بھی مطلب نکلتا ہے۔ او بی سی خواتین کو تحفظات دینا بھول گئے، کسی بھی اقلیتی کمیونٹی کو تحفظات کا کوٹہ دینا بھول گئے پھر بھی یہ لازوال اور تاریخی ہے اور تو اور وزیر اعظم اس بل کا نام ’ ناری شکتی وندن بل‘ رکھ رہے ہیں۔ اس بل سے خود لفظ تحفظات غائب ہے۔ کیا تحفظات کی جگہ آپ لفظ وندن کا استعمال کرسکتے ہیں؟ دستوری حقوق کو پوجا جیسے الفاظ سے بیان کیا جارہا ہے، ویسے اس بل میں نیا کچھ نہیں2020 کا ہی بل پیش کردیا گیا ہے۔ اوبی سی خواتین کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس بل میں او بی سی کی خواتین کو شامل نہیں کرنے کیلئے خدا انہیں چنا ہے، ہم ایک عجیب و غریب دور سے گذررہے ہیں، کہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ، ہم آپ کو پرمیلا ڈنڈوتے کی یاد دلانا چاہتے ہیں اس بل پر اگر پہلی کاپی رائیٹ اگر کسی کی ہے تو پرمیلا ڈنڈوتے کی ہے کیونکہ انہوں نے ہی 1996 میں اسے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا تھا۔ تب ایچ ڈی دیوے گوڑا وزیر اعظم تھے، وہ مہاراشٹرا سے جنتا دل کی رکن پارلیمنٹ تھیں اور جئے پرکاش نارائن کی تحریک سے جڑی تھیں وہ ہمیشہ سے ہی خواتین تحفظات بل کی حامی رہیں۔