خواتین ریزرویشن بل کا نفاذ مردم شماری اور حد بندی سے قبل کیا جائے

,

   

Ferty9 Clinic

راجیہ سبھا میں کانگریس کا مطالبہ ‘ بل برسراقتدار طبقہ کاانتخابی ایجنڈا اور جھنجھنا:رنجیت رنجن

نئی دہلی :خواتین ریزرویشن بل (ناری شکتی وَندن ادھینیم) لوک سبھا سے پاس ہو چکا ہے اور جمعرات کو اس پر راجیہ سبھا میں بحث ہوئی۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے اس بل کے تعلق سے ایوان بالا میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں محفوظ کرنے کی سہولت دینے والے اس بل کو رنجیت رنجن نے برسراقتدار طبقہ کا ’انتخابی ایجنڈا‘ اور ’جھنجھنا‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس مجوزہ قانون کو مردم شماری اور حد بندی سے پہلے ہی نافذ کیا جانا چاہیے۔کانگریس رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے مرکز کی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بل کے پیچھے سازش نظر آتی ہے، کیونکہ حکومت ساڑھے نو سال بعد اسے لے کر آئی ہے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد سیٹیں محفوظ کرنے کے التزام والے آئین (128ویں ترمیم) بل 2023 پر ایوانِ بالا میں بحث کی شروعات کرتے ہوئے رنجیت رنجن نے کہا کہ 2014 کے عام انتخاب کے وقت بی جے پی کے انتخابی منشور میں خواتین ریزرویشن کی بات کی گئی تھی لیکن اس نے اسے پیش کرنے میں اتنا طویل وقت لگا دیا۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر اس بل کے لیے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس کی خاتون لیڈر نے کہا کہ حکومت کا مقصد اس بل کے ذریعہ سرخیاں بٹورنا ہے۔ اس بل کو انتخابی ایجنڈا قرار دیتے ہوئے رنجیت رنجن نے کہا کہ کیا حکومت اس کے ذریعہ جھنجھنا (بچوں کا کھلونا) دکھا رہی ہے۔ حکومت کا ارادہ حد بندی کے بعد سیٹوں کی تعداد مین اضافہ کر کے ریزرویشن مہیا کرانا ہے تاکہ مردوں کی سیٹوں کی تعداد نہ گھٹے۔ انھوں نے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل، پسماندہ طبقہ (او بی سی) کی خواتین کو بھی حقوق دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سیاست کے دلدل میں تنہا خواتین کا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں انھیںبا اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔رنجیت رنجن نے بل کو ’ناری شکتی وَندن ادھینیم‘ نام دینے پر بھی اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ برابری خواتین کا آئینی حق ہے اور اسے دیوی بنانا مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت بھلے ہی خواتین کے وَندن (سلام) کی بات کرتی ہے لیکن اس کی کہنی اور کرنی میں بہت فرق ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ اگر حکومت کا مقصد خواتین کا مناسب احترام کرناہی تھا تو اس نے نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کے موقع پر قبائلی سماج سے آنے والی خاتون صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو کیوں نہیں مدعو کیا۔ جنتر منتر پر خاتون پہلوانوں کے دھرنے کا معاملہ ہو یا منی پور میں خواتین کے استحصال کا معاملہ، حکومت کے رخ کو سبھی نے دیکھا ہے۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ جب اقتدار حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو خواتین کی ’وَندنا‘ کی جاتی ہے، لیکن خواتین کسی رحم کی محتاج نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک بار کہا تھا کہ خواتین کے معاملے میں مردوں کی ذہنیت دوہری ہوتی ہے اور وہ خواتین کو احترام اور برابری دینے کے وقت اپنا پلہ جھاڑ لیتے ہیں۔