خواتین کیخلاف جرائم میں بے تحاشہ اضافہ

   

جیکب پینی کپرا مبیل
ملک کے مختلف علاقوں میں عصمت ریزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور حالیہ عرصہ کے دوران تین ریاستوں میں ریپ اور قتل کے تین ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس نے سارے ملک کو دہلاکر رکھ دیا ہے (بعض ایسے شرمناک واقعات بھی پیش آئے ہیں جس کو شائد جان بوجھ کر میڈیا بالخصوص گودی میڈیا نے اس طرح اس شدت کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا جس طرح کولکتہ کے آر جی کار ہاسپٹل میں پیش آئے عصمت ریزی و قتل کے واقعہ کو پیش کیا گیا۔ اس سلسلہ میں بی جے پی قائدین کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ہر حال میں اور کسی نہ کسی طرح مغربی بنگال میں ممتا بنرجی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں) آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم نے سطور بالا میں تین ریاستوں میں تین خواتین کی عصمت ریزی اور قتل کے جن واقعات کا ذکر کیا ہے وہ اگست کے پہلے تین ہفتوں کے دوران پیش آئے۔ اگرچہ ان تین واقعات کی میڈیا میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی جبکہ عصمت ریزی اور قتل کے ایسے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جو منظر عام پر نہیں آئے۔ بہرحال ہم نے جن تین واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں آر جی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کولکتہ میں 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کا واقعہ بہت زیادہ چھایا رہا، بہ الفاظ دیگر اسے ایک خاص مقصد کے تحت اُچھالا گیا۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ نے اُس واقعہ کا ازخود نوٹ لے کر متعلقہ حکام کے لئے کئی ایک ہدایات جاری کی۔ سپریم کورٹ ججس کے الفاظ میں اس واقعہ نے قوم کے ضمیر کو دہلاکر رکھ دیا، اُنھیں حیرت میں غرق کردیا، عدالت عظمیٰ نے بھی پیشہ وارانہ ماہرین یعنی ڈاکٹروں کے خلاف جنسی اور دوسرے قسم کے حملوں کے انسداد کی خاطر ایک 14 رکنی نیشنل ٹاسک فورس (NTF) بھی قائم کی۔ اب چلتے ہیں دوسرے واقعہ کی طرف جو بہار کے مظفر نگر میں پیش آیا جہاں ایک 14 سالہ دلت لڑکی کی عصمت ریزی کرکے اس کا قتل کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لڑکی کا ریپ اور قتل ایک شادی شدہ شخص اور اس کے ساتھیوں نے کیا کیوں کہ مقتولہ کے خاندان نے اس سے اپنی لڑکی کی شادی کرنے سے انکار کردیا۔ اس کیس میں جو ایف آئی آر درج کی گئی اس کے مطابق مقتولہ کی ماں نے الزام عائد کیاکہ رائے شادی شدہ اور 3 بچوں کا باپ ہے، وہ ان کی کمسن لڑکی سے شادی کرنے کا خواہاں تھا اور اس خوفناک جرم سے ایک دن قبل رائے نے شادی سے متعلق اپنے پیغام کو مسترد کئے جانے پر مقتولہ کے خاندان کو سنگین عواقب و نتائج کی دھمکیاں دیں۔ ریپ اور قتل کا تیسرا واقعہ یوپی اور اتراکھنڈ کی سرحد پر پیش آیا جہاں ایک خانگی ہاسپٹل میں خدمات انجام دینے والی نرس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر موت کی نیند سلادیا گیا۔ مقتولہ ردراپور کے نینی تال روڈ پر واقع ایک خانگی ہاسپٹل میں کام کرتی تھی اور اس کی عمر 33 سال بتائی گئی۔ وہ 30 جولائی کو کام پر گئی تھی، اس کے بعد گھر واپس نہیں ہوئی۔ دوسرے دن اس کی بہن نے ردراپور پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی شکایت درج کروائی۔ 13 اگست کو یوس نگر اتراکھنڈ پولیس نے راجستھان کے علاقہ جودھپور سے ایک شخص کو مبینہ طور پر ریپ اور قتل کے مبینہ جرم کی پاداش میں گرفتار کیا۔ اتراکھنڈ پولیس نے اس کی تحقیقات کی خاطر ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ ان تین مقدمات کے علاوہ 18 اگست کو ممبئی کے SION ہاسپٹل میں ایک خاتون ریسیڈنٹ ڈاکٹر پر ایک مریض اور اس کے رشتہ داروں نے مبینہ طور پر حملہ کیا اور بتایا جاتا ہے کہ وہ تمام حالت نشہ میں تھے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جبکہ کولکتہ کے آر جی میڈیکل کالج میں ٹرینی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل واقعہ پر سارے ملک میں برہمی پائی جاتی ہے۔ اگر ہم نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (NCRB) کی شائع کردہ رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں مختلف جرائم کا کس طرح ارتکاب کیا جارہا ہے خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم میں حالیہ عرصہ کے دوران بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ NCRB رپورٹ 2022 کے مطابق سال 2022 ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے 4,45,256 مقدمات درج کئے گئے جبکہ سال 2021 ء میں اس طرح کے 4,28,278 واقعات پیش آئے جس کا مطلب ایک سال کے دوران 4 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب ہر گھنٹہ میں تقریباً 51 ایف آئی آر کا اندراج عمل میں آیا ہے۔ جہاں تک خواتین کے خلاف جرائم کا سوال ہے ان میں خواتین کے اغواء (19.2 فیصد)، خواتین کی عزت پامال کرنے کے مقصد سے ان پر کئے گئے حملے (18.7 فیصد)، ریپ (7.1 فیصد) اور انسداد جہیز ایکٹ کے تحت 13479 واقعات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مادر شکم میں بچوں کے قتل، جنسی ہراسانی، تیزاب حملہ اور گھریلو تشدد وغیرہ میں بھی اضافہ ہوا۔ NCRB کی رپورٹ برائے سال 2022 ء کے مطابق اترپردیش، مہاراشٹرا، راجستھان، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں سب سے زیادہ جرائم کا اندراج کیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو خواتین پر مظالم اور ان کے خلاف جرائم کے لئے کئی پہلو اور عنصر ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لئے کئی قوانین ہیں، جس چیز کا فقدان ہے وہ ان قوانین پر مناسب عمل آوری کا نہ ہونا ہے۔ ایک اور بات میں آپ کو بتادوں کہ مدھیہ پردیش ملک کی وہ پہلی ریاست ہے جس نے بچوں کا ریپ کرنے پر سزائے موت کی گنجائش فراہم کی۔ اس کے باوجود NCRB کی رپورٹ برائے سال 2020 کے مطابق مدھیہ پردیش میں کمسن بچیوں کے سب سے زیادہ ریپ کے واقعات پیش آئے۔ انڈین اکسپریس کی اشاعت مورخہ 28 جولائی 2024 ء میں بتایا گیا کہ ایک 13 سالہ لڑکے نے مبینہ طور پر مدھیہ پردیش کے ضلع ریوا میں اپنی چھوٹی بہن کا جنسی حملہ کے بعد قتل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پورنو گرافک ویڈیو دیکھنے کے بعد اس نے یہ گندی حرکت کی۔ ان حالات میں ملک میں فحش فلموں اور مواد پر بھی پابندی عائد کئے جانے کی ضرورت ہے۔