مختلف شبہات کا اظہار، این پی آر سے کوئی تعلق نہیں، عہدیداروں کی وضاحت
حیدرآباد۔25 فروری(سیاست نیوز) شہر میں مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے کروائے جانے والے خواندگی کے سروے پر بھی عوام کا اعتماد نہیں رہا اور سروے کنندگان کو تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا جانے لگا ہے۔ بیگم پیٹ علاقہ میں آج سروے کنندگان کو این پی آر اور این آر سی کے نام پر عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے بلدی حدود میں 10 یوم کے خواندگی کے سروے کی تفصیلات اکٹھا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن آج دوسرے دن ہی بیگم پیٹ اور سکندرآباد کے علاقوں میں عوام نے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے سروے کنندگان کو واپس کردیا۔ سروے کنندگان کو واپس کرنے والوں کا کہناہے کہ ریاست تلنگانہ میں این پی آر کے لئے حکومت کی جانب سے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں اور خواندگی کے سروے کے نام پر حاصل کی جانے والی تفصیلات بھی این پی آر کا ہی حصہ ہوسکتی ہیں اسی لئے وہ اس سروے میں حصہ لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے شہر کے خواندگی کے فیصد کی آگاہی کے لئے کئے جانے والے اس سروے کے سلسلہ میں وضاحت کی ہے لیکن عوام کا کہناہے کہ ریاستی حکومت خواندگی کے سروے اور خاندانی بہبود کے سروے کے نام پر اقساط میں وہ تمام تفصیلات حاصل کررہی ہے جو کہ این پی آر کے ذریعہ حصول ممکن نہیں ہے۔
بلدی عہدیداروں کا کہناہے کہ اس سروے کا کوئی تعلق این پی آر سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سروے کنندگان کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بیگم پیٹ اور رسول پورہ کے علاقہ سے سروے کنندگان کو واپس کرنے والوں نے بتایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان حالات میں کوئی سروے کیا جائے اور عوام سے کوئی تفصیلات حاصل کی جائیں لیکن جی ایچ ایم سی کی جانب سے ان کشیدہ حالات اور ماحول میں اس سروے کا انعقاد کرتے ہوئے عوامی شکوک میں اضافہ کیا جا رہاہے۔ بتایاجاتا ہے کہ ان علاقو ںکے عوام سے سروے کنندگان کے شناختی کارڈ دیکھنے اور انہیں جاری کردہ ہدایات کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے باوجود بھی سروے میں حصہ لینے سے انکار کردیا کیونکہ سروے کے دوران خاندان کی تفصیلات اور ان میں خواندہ اور ناخواندہ کی تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں اور ممکن ہے کہ حکومت اقساط میں این پی آرکی تکمیل کیلئے یہ حربہ اختیار کی ہوئی ہے اسی لئے شہریوں کی جانب سے جی ایچ ایم سی کے خواندگی کے سروے میں حصہ لینے سے بھی انکار کیا جا رہاہے اور کہا جا رہاہے کہ اگر جی ایچ ایم سی کو یہ تفصیلات جمع کرنی ہی ہے تو ایک سال انتظار کرے اور ایک سال بعدیہ سروے کروائے تاکہ قومی سطح پر این پی آر کا عمل مکمل ہونے کے بعدعوام کو اس بات کا اطمینان ہوجائے کہ این پی آر ہوچکا ہے اور اب کوئی تفصیلات فراہم کرنے میں دشواری نہیں ہے۔