خود ساختہ قوم پرستوں کا دستور پر حملہ

   

رام پنیانی
وزیراعظم مودی نے 5 اگست 2019 کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا بھومی پوجن کے ذریعہ سنگ بنیاد رکھا اور انہوں نے 5 اگست کا 15 اگست سے تقابل کیا جس دن ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ وزیر اعظم کے خیال میں 15 اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اسی طرح 5 اگست کو ان کے بھگوان رام کو آزادی ملی۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کو آزادی دلانے کے لئے عوام نے مہاتما گاندھی کا ساتھ دیا اور ان کی قیادت میں آزادی حاصل کی اور اب تمام لوگ اپنے بھگوان رام کو آزاد کروانے کے لئے متحد ہوئے۔ بھومی پوجن میں موجود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے منوسمرتی کے چند شلوک کے حوالے دیئے۔

یہ کہنا غلط ہے کہ پچھلی چند صدیوں سے رام مندر کے لئے جدوجہد جاری تھی۔ یہ دعویٰ وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا جو بالکل غلط ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 19 ویں صدی کے اواخر میں مسجد کے باہر رام چبوترے کے لئے ایک تنازعہ پیدا ہوا تھا، لیکن یہ کہنا کہ ہندو اس مندر کے لئے مسلسل جدوجہد کررہے تھے بالکل جھوٹ ہے۔ یہ مسئلہ صرف 1980 کے دہے میں اس وقت منظر عام پر آیا جب بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے مسئلہ کو وی ایچ پی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ وشواہندو پریشد نے اس بات کی مہم کا آغاز کیا تھا کہ ان کے بھگوان رام اسی مقام پر پیدا ہوئے جہاں بابری مسجد واقع ہے۔ چنانچہ اڈوانی نے اس مہم کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہمیں اسی مقام پر شاندار رام مندر کی تعمیر کرنی چاہئے۔ اڈوانی دراصل وشواہندو پریشد کے نعرے کو حقیقی شکل دینے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ وشواہندو پریشد نے ہی یہ نعرہ لگایا تھا کہ مسجد کے مقام پر ہی ہمیں ایک شاندار مندر تعمیر کرنی چاہئے لیکن اصل واقعہ یہ ہے کہ منڈل کمیشن پر عمل آوری کے بعد رام مندر مہم نے زور پکڑا۔ او بی سیز کو 26 فیصد تحفظات منڈل کمیشن کے ذریعہ دیئے گئے اور اس پر عمل آوری کی گئی۔ اگرچہ مسجد کے مقام پر رام مندر کے موجود رہنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس دعوے میں زیادہ جان نہیں تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس نقطہ نظر کو برقرار نہیں رکھا کہ بھگوان رام کی مندر وہاں تھی اور بابر نے اسے منہدم کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس نکتہ یا خیال کو بھی برقرار نہیں رکھا کہ بھگوان رام کی پیدائش مسجد کے مقام پر ہی ہوئی تھی۔ بعض ماہرین آثار قدیمہ کے دعوؤں کے مطابق بعض ستون اور دوسرے دستیاب چیزوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں ایک مندر تھا لیکن ماہرین آثار قدیمہ کے دعوؤں کو دوسرے کئی ماہرین آثار قدیمہ نے مسترد کردیا۔ دوسری طرف رام مندر ی تعمیر کے لئے زمین مسطح کرنے کے دوران بدھسٹ عبادت گاہوں کی باقیات برآمد ہوئیں۔ اگر دیکھا جائے تو تنازعہ یا نفرت کے یہ بیج انگریزوں نے بوئے تھے اور انگریزوں نے ہی بڑی مکاری سے اس کی تخم ریزی کی اور اس کے لئے انگریزی سامراج نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی۔ مسرز اے ایف بیوریج نے ایودھیا میں بابری مسجد پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہاں ایک مندر رہی ہو جس پر مسجد تعمیر کی گئی۔

حالیہ تاریخ میں بابری مسجد سے متعلق پہلا متنازعہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انتہائی مکارانہ انداز میں 1949 کو مسجد میں رام کی مورتیاں رکھ دی گئیں اور یہ کام اچانک اور رات کی تاریکی میں کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یوپی کے چیف منسٹر گووند ولبھ پنت کو ہدایت دی کہ وہ مسجد سے مورتیاں ہٹائیں لیکن ولبھ پنت نے وہاں سے مورتیاں ہٹانے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ ڈسٹرٹک کلکٹر کے کے نائر نے بھی مورتیاں ہٹانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ اس کے برعکس نائک نے اپنی سبکدوشی کے بعد بی جے پی کے سابق اوتار بھارتیہ جن سنگھ میں شمولیت اختیار کرلی۔

بابری مسجد پر تالا ڈال دیا گیا اور 1980 کے وسط تک مسجد پر تالا پڑا رہا۔ تاہم ہندو قوم پرستوں کے دباؤ پر مسجد کے دروازے کھولے گئے اور شیلانیاس کا اہتمام کیا گیا۔ اس وقت راجیو گاندھی عہدہ وزارت عظمی پر فائز تھے۔ شیلانیاس اس مقام پر نہیں کی گئی جہاں اب کی گئی ہے۔ رام لیلا کی مورتیوں کو مسجد میں رکھے جانے کی مجرمانہ کارروائی کو سپریم کورٹ کے فیصلہ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ بہرحال 6 دسمبر 1992 کو فرقہ وارانہ کھیل کھیلتے ہوئے تین لاکھ کارسیوکوں کو بابری مسجد کے مقام پر جمع کیا گیا اور پھر دن دہاڑے ان کارسیوکوں نے تاریخوں آثار کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والی بابری مسجد کو شہید کردیا۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ اس وقت کے چیف منسٹر اترپردیش نے مسجد کا تحفظ کرنے کے لئے ایک حلف نامہ پیش کیا تھا لیکن اس نے اپنے وعدہ سے انحراف کیا اور بعد میں فخریہ اعلان کیا کہ اس نے جو کچھ بھی کیا ہے اس پر اسے فخر ہے۔ بابری مسجد شہادت کے ملزمین کا پتہ چلانے کے لئے قائم کردہ لبریان کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شہادت بابری مسجد کے مجرمین کے طور پر بی جے پی قائدین کے ناموں کا حوالہ دیا (لیکن ان تمام بی جے پی قائدین بشمول ایل کے اڈوانی کو عدالت نے بری کردیا)۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں مسلم بادشاہ ہو یا ہندو راجا دونوں نے عبادت گاہوں کو دولت اور سیاسی عداوت کے لئے منہدم کیا۔ مثال کے طور پر مرہٹھوں نے شری رنگاپٹنم میں ایک مندر کو منہدم کردیا تھا جسے ٹیپو سلطان نے دوبارہ تعمیر کروایا۔ اسی طرح اورنگ زیب نے کاشی میں وشوناتھ ٹمپل کو منہدم کروایا اور اس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ اسی اورنگ زیب نے کئی مندروں کو عطیات بھی دیئے اور گولکنڈہ میں ایک مسجد کو شہید بھی کیا۔ بہرحال آج دستور ہند اور عوام دونوں کو فرقہ پرستی اور فرقہ پرست طاقتوں سے بچانے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں پر سخت نظر رکھنا ضروری ہے جو خودساختہ قوم پرستی کے نام پر ملک کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عبادت گاہوں کے تقدس کو پامال کرنے سے ان طاقتوں کو روکا جائے ورنہ ہر مقام پر یہ عبادت گاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سماج میں بے چینی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔