پشاور: خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں زمینی تنازعہ سے شروع ہونے والا تصادم فرقہ وارانہ کشیدگی میں تبدیل ہوگیا ہے اور ایک ہفتے سے جاری جھڑپوں میں 46 افراد ہلاک اور 98 زخمی ہوگئے ہیں۔ ضلعی انتظامی افسر ڈپٹی کمشنر کے دعوؤں کے باوجود حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے تشکیل کردہ روایتی قبائلی جرگے فریقین کو جنگ بندی پر راضی کرنے کیلئے تاحال کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔کرم کے مختلف علاقوں میں چار مقامات پر متحارب شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جمعہ کے روز بھی جاری رہا۔ ضلعی پولیس اور انتظامیہ میں شامل عہدیداروں نے رابطے پر مختلف مقامات پر قبائل کے مابین جھڑپوں کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے نشانہ بنارہے ہیں۔ ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے مطابق اپر کرم کے علاقے بوشہرہ میں ایک ہفتہ قبل 2 خاندانوں کے درمیان فائرنگ کے واقعہ کے بعد جھڑپیں شروع ہوئیں جو ضلع بھر میں پھیل گئی ہیں۔ ضلعی پولیس عہدیداروں اور پاڑہ چنار کے سینئر صحافی علی افضال نے میڈیا کو بتایا کہ جمعرات کی شب تک جاری جھڑپوں میں مزید پانچ افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے بقول زخمیوں میں زیادہ تر پاڑہ چنار اور سدہ کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ ایک اور صحافی سجاد حیدر نے بتایا ہے کہ فریقین کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کو دیگر علاقوں سے ملانے والی سڑکیں اور راستے مکمل طور پر بند ہیں۔ چیرمین پرائیویٹ اسکولس مینجمنٹ محمد حیات خان نے ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر اور متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے ایک ہفتے سے بند ہیں۔ قبائلی اور سماجی رہنما میر افضل خان نے رابطے پر میڈیا کو بتایا کہ کرم کے مختلف علاقوں میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی اور متحارب قبائلی گروہوں کے درمیان جھڑپوں کے باعث پاڑہ چنار پشاور مرکزی شاہراہ اور پاک افغان خرلاچی بارڈر آمد و رفت کیلئے بند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی بندش سے اشیاء خورد و نوش، تیل اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔