داڑھی کے بعد اب ٹوپی بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکنے لگی

   

سری سیلم میں مسلم آر ٹی سی ڈرائیور کو تلخ تجربہ، مندر حکام اور پولیس نے ٹوپی اُتارنے کا مشورہ دیا

حیدرآباد 5 اگست (سیاست نیوز) ملک میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران مودی حکومت نے بالواسطہ طور پر زعفرانی تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے سماج میں مذہب کے نام پر نفرت کا زہر پھیلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کے واقعات روزانہ رونما ہورہے ہیں۔ بی جے پی نے سنگھ پریوار کی مدد سے جنوبی ہند پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ تلنگانہ، آندھراپردیش، کرناٹک اور ٹاملناڈو میں سنگھ پریوار کی بنیادوں کو مستحکم کیا جاسکے۔ آندھراپردیش میں بی جے پی کی مدد سے این ڈی اے حکومت کے قیام کے بعد چندرابابو نائیڈو بھی فرقہ پرست طاقتوں پر کنٹرول میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرقہ واریت کا زہر اب عوام تک نہیں بلکہ نظم و نسق میں تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ گزشتہ دنوں سری سیلم جانے والی اے پی ایس آر ٹی سی بس ڈرائیور کو اُس وقت تلخ تجربہ ہوا جب ایک مندر انتظامیہ کے علاوہ پولیس نے ٹوپی اُتارنے کی ہدایت دی۔ ملک میں آج تک داڑھی سے نفرت کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن اب مسلمانوں کے سر پر ٹوپی بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکنے لگی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سری سیلم کی مشہور مندر کو جانے والی آر ٹی سی بس کے ڈرائیور مسلمان ہیں اور وہ گزشتہ 30 برسوں سے اِسی روٹ پر بس چلارہے ہیں۔ یاتریوں کے ساتھ جب اُن کی بس مندر پہونچی تو مندر کے گارڈس نے یہ کہتے ہوئے بس کو روک دیا کہ ٹوپی اُتارنے پر ہی مندر کے قریب جانے کی اجازت دی جائے گی۔ مسلم ڈرائیور نے ایمانی حرارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹوپی اُتارنے سے انکار کردیا۔ اُنھوں نے سوال کیاکہ آر ٹی سی میں اگر ایسا کوئی رول ہے تو بتایا جائے کہ ڈرائیور ٹوپی نہیں پہن سکتے۔ بحث و تکرار کے دوران پولیس پہونچ گئی اور مسلم ڈرائیور کی تائید کرنے کے بجائے پولیس عہدیداروں نے بھی ٹوپی اُتارنے کا مشورہ دیا۔ گزشتہ 30 برسوں سے سری سیلم مندر کے یاتریوں کو لیجانے والے مسلم ڈرائیور کو حالات کی تبدیلی پر حیرت ہوئی اور اُس نے عہدیداروں سے کہاکہ آخر ٹوپی سے اِس قدر نفرت کیوں ہے؟ اور یہ ٹوپی دیگر مذاہب کے تقدس میں رکاوٹ کس طرح ہوسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مقامی مندر کے گارڈس نے آر ٹی سی کے ڈپو منیجر سے ڈرائیور کے خلاف شکایت درج کی۔ آر ٹی سی حکام کی جانب سے کیا کارروائی کی گئی اِس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم مقامی افراد کو اِس واقعہ نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چیف منسٹر این چندرابابو نائیڈو جو خود کو سیکولرازم کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب سے بی جے پی کی مدد حاصل کی گئی آندھراپردیش میں سنگھ پریوار نے اپنے پیر پھیلانے شروع کردیئے ہیں۔ آندھراپردیش میں این ڈی اے حکومت ہے جس میں بی جے پی اور جنا سینا شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم اسٹار پون کلیان جو جنا سینا کے سربراہ ہیں، اُن کے نظریات بھی بی جے پی اور سنگھ پریوار سے مختلف نہیں۔ ایسے میں چندرابابو نائیڈو کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل میں آندھراپردیش کو بی جے پی کے قبضہ میں جانے سے بچانے کے لئے ابھی سے چوکس ہوجائیں اور نظم و نسق میں موجود زعفرانی عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے اُن کی سرکوبی کریں۔ اِسی دوران کئی مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے سری سیلم میں مسلم ڈرائیور کو ٹوپی اُتارنے کی شرط پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔1