دربار رسالت کا مقبول گلدستہ درود و سلام

   

آیت صلاۃ و سلام : اِنّ اللہ وَ مَلٰئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِی یٰایّھا الذِّین آمَنُوا صَلُّوا علیہِ وَسَلِّمُوا تَسلِیماً۔ (احزاب : 56) حضور نبی کریم روف و رحیم علیہ الصلاۃ و التسلیم کی عظمت و بزرگی پر دال ہے۔ اس آیت شریفہ میں آپ ؐ کی کمال تعظیم کے ساتھ درود و سلام پر کمال تاکید پائی جاتی ہے۔ آیت شریفہ کا آغاز اِنَّ سے فرماکر اللہ سبحانہ و تعالی نے تعظیم نبی اور صلاۃ و سلام بر روف و رحیم کے مضمون کو موکد فرمایا اور اپنی صلاۃ کے ساتھ فرشتوں کی صلاۃ کو مقرون فرماکر پھر غلامان مصطفی کو یا ایھا الذین آمنو کے محبت بھرے خطاب سے سرفراز فرماکر ان کو بھی درور و سلام بھیجنے کا تاکیدی حکم فرمایا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ کو اپنے مقرب و محبوب کی تعظیم مقصود ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ صرف حکم دے کہ اے میرے درباریو تم سب فلاں کی تعظیم کرو اور دوسری صورت یہ ہے کہ بادشاہ خود اس مقرب و محبوب کی تعظیم کرے اور اپنے امرائے مقربین سے بھی تعظیم کروائے اور اس کے بعد تمام رعایا پر یہ بات بتاکید ظاہر کرے کہ ہم اور ہمارے مقربین فلاں مقرب کی تعظیم کرتے ہیں تم سب بھی ان کی تعظیم کرو۔ اس آیت میں مثال دوسری صورت کی ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں نہایت تعظیم وتاکید مقصود ہے بہ نسبت پہلی صورت کے ۔ نیز یہ آیت جس طرح کمال تعظیم رسول اللہؐپر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح فضیلتِ درود اور درود بھیجنے والے کے شرف پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ از روئے آیت درود بھیجنے والا وہ عظیم کام کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی اور ملائکہ کرتے ہیں اور درود بھیجنا ایسا اشرف کام ہے کہ مصدر اول اس کا خود اللہ سبحانہ و تعالی اور ملائکہ ہیں۔ جب آیتِ صلاۃ و سلام کا نزول ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے خدمت میں صلاۃ و سلام کیسے بھیجیں؟ تو آپ نے تعلیماً فرمایا کہ تم اس دربار ربانی میں اپنا عریضہ پیش کرو کہ اے ہمارے رب نہ تو ہم کو آپ کی معرفت حاصل ہے اور نہ ہم کو آپ کے حبیب پاک کے مقام و مرتبہ کا اداراک لہذا اے رب تعالی اپنے حبیب کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے آپ ہی درود بھیجئے کہ ہم اس بحرِ معرفت کے شناور نہیں۔ اس لئے آپ نے صحابہ کرام کو درود ابراہیم سکھلایا۔ آیت صلاۃ و سلام میں جو حکم مذکور ہے اس کے لحاظ سے ہر امتی پر ایک بار صلاۃ و سلام کا نذرانہ بھیجنا فرض ہے جیسا کہ ساری عمر میں ایک مرتبہ کلمہ شہادت شعور کے ساتھ پڑھنا فرض ہے۔ عددکا حصر اس لئے نہیں ہے کہ یہ پتہ چلے کہ کون کتنا عشق ہمارے حبیب سے رکھتا ہے اور کون کتنا درود بھیجتا ہے۔آیت صلاۃ و سلام زماں و مکاں سے مقید نہیں۔ حصول تقرب نبی ؐکے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین ، تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہم اور ہر عصر و مصر کے صوفیاء باصفا علیہم الرحمۃ والرضوان درود شریف کو اپنا حرزِجاں بنالیا چنانچہ تمام سلاسل روحانیہ میں کثرت درود اذکار کا ایک اہم جز ہے بلکہ بعض صوفیاء کرام روزانہ ایک لاکھ درود کا نذرانہ بھی ارسال کرنے کا شرف رکھتے ہیں جن کی تفصیل پیش کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ کثرت درود تقرب الہی و حصول خوشنودی نبی کریم کا اہم ذریعہ ہے حدیث نبوی میں ارشاد مصطفے علیہ الصلاۃ و السلام ہے کہ : لَیَرْدَنَّ علی الحوضِ یومَ القیامۃ اقوامٌ ما اعْرِفِھُم اِلّا بکثرۃِ الصلاۃِ علَّی حوض کوثر پر روز قیامت کئی قومیں آئیںگی جن کو میں میرے اوپر کثرت دورد کی وجہ سے پہچانوں گا (یعنی مجھ پر درود کی کثرت اور برکت کی وجہ سے ان کے چہرے روشن اور چمکتے ہوں گے)۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے بزرگان دین نے ہر زمانے میں مقبول بارگاہ رسالت درودوں کو پڑھنے جمع کرنے ترجمے کرنے حواشی لکھنے میںاپنی عمریں صرف کردیں اور بالآخر اپنے گو ہر مقصود کو پالیا اور اس کام کی برکت سے اسی دنیاوی زندگی میں ان کو اخروی نعمتوں کی نوید سنائی گئی اور اپنے غلاموں کو اپنے رخ زیبا کی زیارت سے نواز کر انکی پذیرائی فرمائی ۔ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک سنہری کڑی اوائل الخیرات ہے جو خوبصورت درودوں کا ایک حسین مجموعہ ہے اور جس کی نسبت حضرت علامہ صوفی با صفا مولانا و مقتدانا سید محمد عبد الغفور خان نامیؔ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے۔ اوائل الخیرات کی عظمت و بزرگی: حضرت نامیؔ عہد طفولیت سے ہی عشق رسول سے معمور و متصف تھے اور دیدار نبی کے مشتاق و متمنی تھے اس لئے کثرت سے درود شریف بھیجنے کا اہتمام بالالتزام فرماتے تھے چنانچہ حضرت نامی خود اوائل الخیرات کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: اِنِّی کنتُ مُتَکَثِّرًا فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ مِنْ حَدَاثَۃِ سِنِّی (مقدمہ اوائل الخیرات از حضرت نامی)(میں بچپن ہی سے نبی کریم صلی اللہ علی و آلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجتا تھا)۔ کثرت درود کی وجہ رقم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کنتُ مُشتَاقًا لِّرُوْیَتِہِ صَلی اللہ و آلہ وَسَلَّم فِی الْمَنَامِ(میں خواب میں دیدار نبی کریم کا مشتاق و متمنی تھا) پھر آگے لکھتے ہیں کہ مدت مدید تک میری یہ آرزو پوری نہیں ہوئی مگر میرا دیدار شوق دن بدن بڑھتا ہی گیا اور درود و سلام سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا یہاں تک کہ میں اپنی مراد کو پالیا۔(میں کئی سال تک دیدار نبی سے مشرف نہیںہوسکا لیکن آپ کی محبت میں دیدار کا شوق دن بدن بڑھتا ہی گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے سلف صالحین کی درود سے متعلق کتابیں پڑھنے لگا اور ان درودوں پر مداومت کی جو مجھے پسند تھے اس مداومت کی برکت یہ ہوئی کہ مجھے عالم رویا ء میں دیدار نبی نصیب ہوا) اس کے بعد دیدار حبیب کا مبارک سلسلہ عالم رویا و یقظہ میں جاری ہوگیا اور پھر ایک ایسی مبارک ساعت بھی آئی جب آپ ؐنے حضرت نامی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: صَنِّفْ کِتَابًا فِی الصَّلَاْۃِ وَا لسَّلَاْمِ عَلَیَّ وَسَمِّہ بِاَوَائِلِ الْخَیْرَاتِ لِیَحْتَوِیْ عَلَی الْاَحْزَابِ السَّبْعَۃِ کَمَا صَنَّفَ الجَزُوْلِی دَلَائِلَ الْخَیْرَاْتِ (اے نامیؔ تم ایک کتاب مجھ پر صلاۃ و سلام سے متعلق تصنیف کرو اور اس کا نام اوائل الخیرات رکھو جو سات احزاب پر مشتمل ہو جیسا کہ جزولی نے دلائل الخیرات تصنیف کی۔)جب حضرت نامیؔ نے اپنی کم ہمتی و قلیل البضاعۃ کا عذر پیش کیا تو آپ ؐنے آپ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا : یُوَیِّدُکَ اللہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَسَیَکُوْنُ کِتَابُکَ مَقْبُوْلاً عِنْدِیْ وَ عِنْدَ اللہِ سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی: (اللہ تمہاری روح القدس کے ذریعہ تائید فرمائے گا اور تمہاری کتاب اللہ کے نزدیک اور میرے نزدیک مقبول رہے گی) یہ خوشخبری پانے کے بعد آپ نے اس کتاب کی تصنیف شروع فرمائی اور از روئے حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سات احزاب پر تقسیم کیا جس کی شروعات جمعہ کے دن سے فرمائی یعنی حزب اول جمعہ سے شروع کرکے جمعرات کو ساتواں حزب ختم کیا۔ جمعہ سے حزب کے آغاز کی مصلحت یہ ہے کہ جمعہ کے دن ہی آپ کو اوائل الخیرات کی تصنیف کا حکم ملا تھا۔ اب اوائل الخیرات اور صاحب اوائل الخیرات کا مقام و مرتبہ ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت نامی فرماتے ہیں: قَرَاتُ بَعْضَہ عَلَیْہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَاْمِ وبَعْضَہُ فِی الْیَقْظَۃِ (میں نے اوائل الخیرات کیبعض حزب حالت رویا میں اور بعض حزب عالم بیداری میں آپ ؐ کی جناب میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی)۔مذکورہ بالا حقائق سے کئی شبہات کا ازالہ اور معترضین کا مسکت جواب مل گیا :میں مبارکباد دیتا ہوں حضرت سید شاہ محمدخضر پاشاہ نقشبندی و مجددی مدت فیوضہ سجادہ نشین بارگاہِ نقشبنددکن حضرت سیدنا شاہ سعد اللہ نقشبندی و مجددی قدس سرہ کو کہ جنکی سرپرستی میں جناب سید محمد ابراہیم خان اور جناب سید محمد عبد الصمد خان جو حضرت خضر پاشاہ کے پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں نے اپنے جد اعلیٰ حضرت نامی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اپنا خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ساتویں اشاعت بصحت طباعت کی مکمل ذمہ داری قبول کئے اور اس خوبصورت گلدستے کو عاشقانِ رسولؐکے ہاتھوں کی زینت بنانے میں شبانہ روز مصروف رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت خضر پاشاہ سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے شبانہ روز مصروف ہیں اور جن کی توجہ سے سلسلہ نقشبندیہ سے متعلق کئی کتابیں تحقیق و تدقیق کے بعد زیور طباعت سے آراستہ ہوکر وابستگانِ نقشبندیہ کے ہاتھوں میں موجود ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حضرت خضر پاشاہ کاروحانی و علمی فیضان جاری و ساری رہے اور تادیر ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رہے ۔ ذیل میں دیئے گئے فون نمبرات پر ربط پیدا کر کے اوائل الخیرات مفت حاصل کریں۔
9885402993 ، 8790149812 ، 7799480080
کاتب السطور
محمد مصطفے شریف عفی عنہ،خادم لغۃالقرآن الکریم