درختوں سے تعلق کا ہنر سیکھ لے انسان جڑوں میں زخم لگتے ہیں تو ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں

   

Ferty9 Clinic

جلیل ازہر

رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی ملکیت تنازعہ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی گھڑی جیسے جیسے قریب آرہی ہے، سارے ملک میں عجیب و غریب کیفیت دیکھی جارہی ہے۔ ملک کے ہر حصہ میں بلکہ معمولی تعلقہ جات میں بھی محکمہ پولیس چوکسی اختیار کرتے ہوئے ہر مقام پر دانشوروں، مساجد کی کمیٹیوں، مختلف تنظیموں سے رائے طلب کرتے ہوئے امن کی برقراری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتی۔ ہر علاقہ میں امن کی برقراری اور فیصلے کے بعد کسی بھی شخص کو مشتعل نہ ہونے اور عدلیہ کے فیصلے کا احترام کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یقینا ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے امن و امان کی برقراری پر خصوصی توجہ مرکوز کرے۔ عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا اور قبول کرنا ہے۔ ہر طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ یہ ایک حساس مسئلہ ہونے کی وجہ برملا یا خفیہ طور پر بھی اپنا ردعمل ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ مسئلہ حساس ہونے کے علاوہ ملک کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے صادر کیا جانے والا ہے اور دونوں فریقین نے بھی عدالت کے فیصلہ کو قابل قبول قرار دیا ہے تاہم پولیس کافی چوکسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ آج ملک کے ہر علاقہ میں علماء حضرات مذہبی رہنما کے علاوہ صحافت سے بھی اپیل کی جارہی ہے کہ وہ جذبات اور احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے عدالت کے فیصلے کا احترام کریں۔ ضلع ایس پی نرمل سی ششی دھر راجو نے بھی نمائندہ سیاست جلیل ازہر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نرمل کی تمام معزز شخصیتوں بالخصوص مساجد کی انتظامی کمیٹیوں سے اس ضمن میں اجلاس منعقد کرتے ہوئے لا اینڈ آرڈر کی برقراری اور بابری مسجد کے تعلق سے فیصلے کے بعد کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو، جس سے امن و امان خراب ہو تمام معزز شخصیتوں نے تیقن دیا کہ وہ اس سلسلے میں پولیس سے کل تعاون کریں اور امن کی برقراری کے لئے نوجوانوں کو ترغیب بھی دیں گے۔ ملک کے ایک نامور شاعر جوہر کانپوری نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ان اشعار کے ذریعہ اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
فیصلہ کچھ بھی ہو مگر آگ نہ لگنے پائے
گھر بڑی چیز ہے تنکا بھی نہ جلنے پائے
ناگ نفرت کا کسی کو بھی نہ ڈسنے پائے
اب کوئی پھولوں میں بارود نہ رکھنے پائے
ہے دعا فرقہ پرستی کو اُٹھالے مولیٰ
میرے ملک کو تباہی سے بچالے مولیٰ
ویسے یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ حکومت اور شہری کا تعلق خواہ کسی بھی طبقہ کا کیوں نہ ہو، شہری کا تعلق حکومت سے آپس میں وہی ہوتا ہے جو ماں اور ایک بچے کا ہوتا ہے جس طرح ایک ماں اپنے بچے کی پرورش اور حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے جس طرح ایک بچے کو یہ سب کچھ دینے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ یہی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، اپنے شہریوں کے لئے ان کی حفاظت ان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری کو محسوس کرے کیونکہ حکومت کے سسٹم میں ہر شہری ایسی پرورش پاتا ہے اور اپنی حکومت کے حقوق ماں کے حقوق کی طرح ادا کرتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کے تعلق سے میرے مطالعہ میں شامل ایک واقعہ قلمبند کروں کہ جاپان ریلوے نے ٹوئٹر نوٹس لیا کہ دور دراز کے ایک اسٹیشن پر کئی برسوں سے کوئی مسافر سوار نہیں ہورہا ہے۔ نہ ہی کوئی جاتا ہے لہٰذا ریلوے کے عہدیداروں نے اس اسٹیشن کو بند کردینے کا فیصلہ فضول خرچ سمجھتے ہوئے لے لیا۔ جلد ہی حکومت کو معلوم ہوا کہ اس اسٹیشن سے صرف ایک ہی لڑکی اسکول جاتی اور آتی ہے تو ریلوے نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تاکہ اس بچی کی تعلیم کا سلسلہ بند نہ ہوجائے گا۔ تین برس تک اس بچی کے لئے ایک ٹرین چلتی رہی۔ اس اسٹیشن کو اس دن بند کردیا گیا جس دن بچی کے اسکول کا آخری دن تھا، اس آخری دن بچی نے جو بات کہی جس کو ہر شہری سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس نے کہا کہ میرے ملک نے آج تک میرے لئے جو کیا، اس کے لئے میں شکر گزار اور قرض دار ہوں۔ اب میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے ملک کی خدمت کروں اور وہ سب لوٹاؤں جو اس نے میرے لیا کیا تھا۔ حکومتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ بابری مسجد کے فیصلے کے تناظر میں ہر شہری کو چاہئے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے غیرضروری افواہوں پر توجہ نہ دیں۔ سلامتی اس میں ہے کہ غیرضروری بات نہ کی جائے کیونکہ جب تک مچھلی کا منہ بند رہتا ہے، وہ کانٹے کی گرفت میں نہیں آتی۔ صرف دعا کی جائے کہ ملک میں امن و امان کی فضاء برقرار رہے بلکہ ملک کے ماحول میں ایسی فضاء کو پروان چڑھایا جائے:
درد ہو اتنا کہ مقدر جواب دے
قطرہ کرے سوال تو سمندر جواب دے
ملک میں ہو ہمارے اتنی ایکتا
کے مسجد سے ہو سوال تو مندر جواب دے
فون نمبر 9849172877