درگاہ حضرت بابا شرف الدین پہاڑی شریف کے تحت 50 ایکڑ قیمتی اراضی بھی خطرہ میں

   

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر ۔ یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا کے سی آر کا وعدہ وفا نہ ہوا

راج شیکھر ریڈی حکومت میں وقف بورڈ کو واپس کی گئی اراضی پر ریاستی وزیر اور فرزند کی نگرانی میں قبضے ۔ منادر و شمشان کا قیام۔ حکام خاموش

حیدرآباد۔17جولائی (سیاست نیوز) متحدہ آندھرا پردیش کی ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی حکومت نے شمس آباد ائیر پورٹ سے متصل 50ایکڑ موقوفہ اراضی وقف بورڈ کے حوالہ کرکے اس کے احکام جاری کئے تھے لیکن اب اس اراضی کو بھی خطرہ لاحق ہوچکا ہے اور حکومت میں شامل وزیر اور ان کے فرزند کے علاوہ دیگر قائدین اس اراضی پر قبضے شروع کرچکے ہیں ۔ سروے نمبر 90اور91 میں وقف بورڈ کے حوالہ کی گئی اس انتہائی قیمتی اراضی پر مٹی نکالنے کے علاوہ منادر کے قیام اور شمشان کیلئے اراضی حوالہ کرکے قبضہ کیا جارہا ہے۔ درگاہ حضر سید بابا شرف الدین سہروردی ؒ کے تحت حکومت سے محصلہ اراضی کیلئے مسلمانوں میں برہمی کے پیش نظر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی نے 11فروری 2009کو حکومت سے جی اوجاری کرکے 50ایکڑ اراضی سرکردہ مسلمانوں کی موجودگی میں وقف بورڈ کے حوالہ کرنے احکام حوالہ کئے تھے۔ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی نے جس وقت یہ اراضی حوالہ کی تھی اس وقت مولانا حمید الدین حسامی عاقلؒ ‘ مولانا رحیم قریشی ؒ ‘ اس وقت کے صدرنشین وقف بورڈ جناب الیاس سیٹھ ‘ جناب محمد احمد اللہ ‘ جناب محمد علی شبیر کے علاوہ بیرسٹر اسدالدین اویسی ‘ اکبر الدین اویسی و دیگر موجود تھے۔متحدہ آندھراپردیش میں حکومت سے حوالہ کی گئی اراضی کے تحفظ کیلئے مولانا سید شاہ غلام افضل بیابانی خسرو پاشاہ کے دور میں ارکان وقف بورڈ کے ہمراہ دورہ کرکے اراضی کے تحفظ کے اقدامات کئے گئے تھے اور اراضی پر جملہ 8 بورڈ آویزاں کرنے کے علاوہ مختلف مقامات پر پہاڑوں پر اس اراضی کے موقوفہ ہونے اور داخلہ کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا انتباہ دیتے ہوئے نوٹسیں آویزاں کی گئی تھیں لیکن گذشتہ 9 برسوں میں اس اراضی پر 2منادر کے قیام کے علاوہ ایک مقام پر شمشان گھاٹ بنایا جاچکا ہے اور اب بھی بڑے جے سی بی اور کریشر مشین لگاکر پہاڑوں کو توڑا جا رہاہے لیکن تلنگانہ وقف بورڈ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے قاصر ہے اور کہا جار ہا ہے کہ ریاستی وزیر اور انکے فرزند کی نگرانی میں اس کاروائی میں مداخلت وقف بورڈ کیلئے مشکل کا سبب بن سکتی ہے ۔’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘ کے مصداق چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے جو قیام تلنگانہ سے قبل موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کیلئے کئی تیقنات دیئے تھے اب ان کی جماعت کے قائدین ہی قیمتی موقوفہ اراضی کو تباہ کررہے ہیں۔شہر سے قریب اس انتہائی قیمتی اراضی پر قبضہ کی کوششوں پر روک لگانے وقف بورڈ کو چاہئے کہ وہ فوری اس کے تحفظ کے اقدامات کرکے اراضی پر اعلان کے مطابق چوکیداروں کو متعین کرے ۔ اطراف خاردار تاروں سے حصار بندی کو یقینی بنائے۔ وقف بورڈ عہدیدار جو قبضہ کے دوران خاموشی اختیار کرتے ہیں اور تاخیر سے جاگتے ہیں اسکے سبب قابضین کو جائیدادوں کو عدالت میں متنازعہ بنانے کا موقع میسر آتا ہے ۔کروڑہا روپئے مالیت کی اس اراضی پر سرکاری سرپرستی میں قبضہ کو رکوانے اگر فوری اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں تو متحدہ آندھراپردیش میں وقف بورڈ کو حوالہ کی گئی کروڑہا روپئے مالیاتی یہ اراضی اور ا س کے علاوہ مزید 35ایکڑ اراضی دیگر متنازعہ موقوفہ اراضیات کی طرح ہوجائیں گی اور ان کا حصول ممکن نہیں رہے گااور پھر وقف بورڈ کو لاکھوں روپئے خرچ کرکے مقدمہ بازی کرنی پڑے گی۔م