درگاہ حضرت کمال بیابانی کی متنازعہ قیمتی اراضی کے تحفظ پر حکومت سنجیدہ اقدامات سے قاصر

   

متولی اور وقف بورڈ کے درمیان عدالت میں مقدمہ ، جانسن کی غیر مجاز قبضہ کی کوشش
نظام آباد، 20/جون ( سیاست نیوز ) ۔ درگاہ حضرت کمال بیابانی کی متنازعہ قیمتی اراضی کو لے کر جہاں متولی اور وقف بورڈ کے درمیان عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے اس راضی کی تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں جبکہ یہ اراضی بورڈ کی ہونے کا وقف بورڈ دلیل پیش کر رہا ہے ۔ اس کے باوجود بھی اس کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے لینڈ گرابر کی جانب سے اس پر غیر مجاز طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے پر متولی اس کو ناکام بنانے کے لیے سجادہ نشین صوفی یونس مرزا قادری چشتی بیابانی نے ضلع کلکٹر نظام آباد کو ایک تحریری درخواست پیش کرتے ہوئے تحفظ کا مطالبہ کیا ۔ سروے نمبر 294 285 واقع آرمور روڈ پر ہے اس پرایچ پی پٹرول پمپ کے مالک مسٹر جانسن کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ قبل از بھی اس پر بی سی اسٹڈی سرکل تعمیر کرنے اس وقت کے وزیر محمود علی سابق رکن پارلیمنٹ و ایم ایل سی کے کویتا سابق رکن اسمبلی گنیش گپتا نے اس پر سنگ بنیاد رکھا تھا جس پر متولی نے اس کو سروے نمبر 285 اور 294 ان کی ملکیت بتاتے ہوئے ہائی کورٹ سے حکم التوا حاصل کیا تھا اور اس پر وقف بورڈ نے بھی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے وقف کی اراضی ہونے کی دلیل پیش کی تھی اور اس پر حکم التوا برقرار ہے اس کے باوجود بھی ضلع انتظامیہ اور وقف بورڈ کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مجاز طور پر جانسن نے قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف فروری میں متولی کی جانب سے ضلع کلکٹر کو تحریری یادداشت بھی پیش کی گئی لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی متولی صوفی یونس مرزا نے اس درخواست میں کئی عدالتی احکامات کا حوالہ بھی دیا ہے جن میں ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ Status Quo ( موجودہ حالت کو برقرار رکھنے ) کے احکامات شامل ہیں، جن کے مطابق متنازعہ زمین پر کسی قسم کی تعمیر یا تبدیلی ممنوع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ نے بھی 25 ستمبر 2013 کو اس زمین کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا، جو درگاہ سے منسلک مسجد، قبرستان، عاشور خانہ سمیت دیگر مذہبی و عوامی مقامات پر مشتمل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد مرحوم شیر علی شاہ نے 2002 کے Gazette Notification کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں وقف کی نجی پٹہ زمین کو بلا اجازت اور لاعلمی میں شامل کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس حوالے سے بھی Status Quo کے احکامات جاری کیے تھے جو اب بھی برقرار ہیں۔یونس مرزا نے الزام لگایا کہ مسٹر جانسن نے 16 فروری 2025 کو املی کے درخت کاٹے، جو کہ نہ صرف ماحول دوست قوانین بلکہ سرکاری تحفظ میں موجود درختوں کے ضوابط کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سجادہ نشین نے ضلع انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ موقع پر معائنہ کر کے فوری طور پر غیر قانونی تجاوزات اور تعمیرات کو منہدم کیا جائے، اور متعلقہ افراد کے خلاف تعزیراتِ ہند (IPC) اور WALTA ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔ وقف بورڈ ایک طرف اس ملکیت کو اپنی بتاتے ہوئے دلیل پیش کر رہا ہے لیکن اس کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے۔