رام پنیانی
ہمارے عظیم ملک ہندوستان میں ایک ایسا سیاسی نظام ہے جہاں مقننہ ملک کے لئے قوانین اور قواعد بناتا ہے جب کہ عدلیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مقننہ دستور ہند، آئین کی راہ پر چلے اور دستور میں جن اقدار کا ذکر کیا گیا ہے، ان کا تحفظ ہو۔ فی الحال عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عدلیہ، مقننہ کے دباؤ میں ہے اور ساتھ ہی عاملہ اپنی راہ اپنی سمت سے محروم ہورہی ہے، یعنی اپنی راہ سے ہٹ رہی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران عدالتوں کی مختلف بینچوں اور سیاسی شعبہ سے وابستہ شخصیتوں کے جو بیانات سامنے آئے ہیں، اس نے عدلیہ کے بارے میں پیدا شدہ خدشات و تاثرات کو کسی حد تک درست ثابت کیا ہے، لیکن مسئلہ بہت گہرائی تک پہنچ گیا ہے، جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔
حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ کے ریمارکس آن لائن قانونی جریدہ بار اینڈ بینچ میں شائع ہوئے جو انھوں نے بزنس چیمبرس کی ایک تقریب میں کئے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستانی خواتین کو بہت عزت ملی ہے۔ اس ضمن میں جسٹس پرتیبھا نے اس کی وجہ ہمارے مذہبی کتب کو بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی کتب میں ہمیشہ خواتین کو باعزت اور باوقار رُتبہ عطا کیا گیا ہے۔ انھوں نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا ’’میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے آباء و اجداد اور ویدک مخطوطات اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ خواتین کا کس طرح احترام کیا جائے‘‘۔
منوسمرتی کے اشلوک نمبر 3/56 میں درحقیقت یہ کہا گیا ہے کہ جہاں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے، وہاں دیوتا خوش ہوتے ہیں اور اس گھر میں اپنا بسیراکرتے ہیں۔ یہ تو منوسمرتی کی بات رہی، لیکن کیا ان اشلوک کا تھوڑا یا معمولی سا عکس بھی ہمارے معاشرہ میں نظر آتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں خواتین کا حقیقت میں احترام کیا جاتا ہے؟ منوسمرتی میں جو کچھ کہا گیا، ہندو قوم پرستی کے نظریہ ساز اسے بار بار دہراتے ہیں جو شاید وہی ہے جو جج صاحبہ نے کہا ہے۔ تاہم منوسمرتی کے ماننے والے اس کتاب میں موجود دوسرے بیانات کا کبھی بھی حوالہ نہیں دیتے جو خواتین کے کمتر سماجی رُتبہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر منوسمرتی کے چیاپٹر 5 شلوکاس 148 میں کہا گیا کہ یہاں تک وہ خود سے گھر میں کبھی بھی آزادانہ طور پر کوئی بھی کام انجام نہیں دینا چاہتے۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کام اپنی مرضی و منشا کے مطابق نہیں کرسکتی۔ ایک بچی کی حیثیت سے اس کا اپنے والد کے کنٹرول میں رہنا ضروری ہے۔ ایک جوان خاتون کی حیثیت سے اس کا اپنے شوہر کے کنٹرول میں رہنا ضروری ہے اور جب اس کا شوہر مرجائے تو اپنے بیٹوں کے کنٹرول میں رہنا ضروری ہے۔
منوسمرتی کو نازل شدہ متن کے طور پر پیش کرنے کا رجحان بہت خطرناک ہے جس کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی کوشش قانون اور قدیم مذہبی قانون کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اپنی تحریروں اور تقاریر کی تیسری جِلد میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے یہ بھی کہا کہ منوسمرتی 150 قبل مسیح اور 170 قبل مسیح کے درمیان لکھی گئی ہوگی جو برہمن راجہ پشیامترا شنگ کی جانب سے بدھ ازم اور بدھسٹوں پر حملوں کا دور تھا، جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ بدھ مت نے مساوات کے اقدار کو پھیلانے کی کوشش کی ہے، لیکن ہندوستان میں اسے کئی حملوں کا سامنا کرنا پڑا، عصری تعلیم انگریزوں کے تسلط کے دوران ہندوستان میں متعارف کروائی گئی اور پھر اسی دوران سماجی اصلاحات کا دور شروع ہوا۔ سماجی مصلح جیسے ساویتری بائی پھولے نے لڑکیوں کے اسکولس شروع کئے اور دیکھا جائے تو انھوں نے خواتین کے مساویانہ حقوق کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ سماجی قدامت پسندوں کے شدید حملوں کے باوجود ساویتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ نے لڑکیوں کو تعلیم دی ، یہ قدامت پسند منو دھرما سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ساویتری بائی پھولے کے تئیں عداوت اس قدر سنگین رُخ اختیار کرگئی کہ جب وہ لڑکیوں کو پڑھانے اسکول جایا کرتی، تب یہ قدامت پسند ان پر گوبر اور کیچڑ پھینکتے۔ جہاں تک ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا سوال ہے، انھوں نے ہمیشہ سماجی مساوات کے لئے کام کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ خواتین میں مساوات، تمام ذاتوں کے ارکان یا سماجی گروپوں میں مساوات کے لئے کام کرنے والوں کی امبیڈکر نے تائید و حمایت کی۔ چنانچہ گاندھی اور دوسروں کی زیر قیادت قومی تحریک میں امبیڈکر کا آئیڈیا بنیادی خوبیوں میں سے ایک خوبی تھی جبکہ ہندو راشٹرا کے حامی جس مقصد کے لئے لڑائی لڑرہے تھے، وہ اس کے متضاد تھا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ قوم پرست جو کہتے ہیں کہ دوسرے مذاہب مختلف نہیں ہوتے، ان کی اطلاع کے لئے یہ بتانا اہم ہے کہ مصر کی اخوان المسلمین سے لے کر افغانستان کے طالبان بھی ان ہی جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں کہ خواتین کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیمیں چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، عام طور پر ان میں پوری طرح مردوں کی اجارہ داری ہے۔ آر ایس ایس میں آپ مردوں کی اجارہ داری کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ایک نسلی قوم کی تخلیق سے متعلق اپنے منصوبہ کو وسعت دینے کے لئے اس نے صرف خواتین کے لئے راشٹرا سیویکا سمیتی کا آغاز کیا۔ اس کے نام سے ہی عورتوں کے ساتھ عدم مساوات کا پتہ چلتا ہے۔ آر ایس ایس میں مردوں کے لئے سوئم سیوک کا استعمال کیا گیا جس کے معنی والینٹرس ہوتے ہیں جب کہ سیویکا کے معنی خدمت گزار خاتون کے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے جس انداز میں آئین کا مسودہ تیار کیا، اس میں مساوات کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ ریاست اور ریاست کے اداروں کی من مانی کو مسترد کیا۔ اس طرح دستور ہند میں ہندوستان کی تحریک آزادی کا عکس نظر آتا ہے۔ پھولے اور فاطمہ شیخ کے بعد جن خواتین نے ذات پات، خواتین کے ساتھ عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی، ان میں پنڈتا رامابائی اور آنندی گوپال شامل ہیں جنھوں نے خواتین کے لئے مساوات کی لڑائی لڑی۔ اس طرح قومی تحریک میں حصہ لینے والی خواتین کی ایک طویل فہرست ہے۔ سروجنی نائیڈو سے لے کر ارونا آصف علی اور بھیکاجی کاما سے لے کر اوشا مہتا، یہ اور ان جیسی ہزاروں لاکھوں خواتین ہیں جو پدرانہ نظام کے شکنجہ کو توڑکر جدوجہد آزادی کی روشن مثالیں بن گئیں، مشعل بردار کا کردار ادا کیا ہے۔
بہرحال ہمارے قابل ججس اور سیاستدانوں کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کو لے کر بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف ہمارے یہاں منو دھرما کی درجہ بندی ہے اور دوسری طرف امبیڈکر کا بنایا ہوا دستور ہے جو مساوات برقرار رکھا ہوا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ صنفی اِنصاف سے متعلق وکلاء اور ججس صاحبان اہم کردار ادا کریں گے۔