دستوری ترامیم سے ملک و قوم کی ترقی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہم نے 26 نومبر 2024 کو دستور ہند کو اپنانے کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) نے معمول سے ہٹ کر ’’ہمارے ملک کے آئین کے 75 سالہ سفر کی یادیں تازہ کی۔ لوک سبھا میں دو دن اور راجیہ سبھا میں دو دنوں تک دستور ہند کے بارے میں مباحث ہوئے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس موضوع پر اچھی تقاریر بھی ہوئی اور بُرے خطابات بھی ارکان اور عوام کو برداشت کرنی پڑی، تاہم دستورکے بارے میں کوئی ایسی پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر نہیں کی گئی جسے آئندہ 75 سال تک یاد رکھا جاسکے ۔ جس طرح 14 – 15 اگست 1947 کو ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو ’’ تقدیر کے ساتھ کوشش‘‘ یا پھر معمار دستور بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کی، عوام کے ذریعہ حکومت کے زیر عنوان 25 نومبر کو دستور ساز اسمبلی میں خطاب کیا تھا ۔ پنڈت نہرو اور ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راو امبیڈکر نے ’’عوام کے ذریعہ حکومت‘‘ کی وہ تقاریر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ ہماری نئی نسل بھی اس بارے میں جانتی ہے ۔ 75 سال قبل کانگریس پارٹی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کے پیچھے کارفرما محرک تھی ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے کانگریس کا دستور ساز اسمبلی میں نظم و صبط اور ڈسپلن لانے والی پارٹی کی حیثیت سے حوالہ دیا تھا ۔ آج کانگریس لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے ، یہ اگرچہ قسمت کی ایک تکلیف دہ تبدیلی ہے لیکن ناقابل واپسی نہیں (ویسے بھی دولت اور اقتدار منتقل ہوتے رہتے ہیں اور یہی قانونِ فطرت ہے۔ کبھی کسی کے پاس تو کبھی کسی کے پاس ہوتے ہیں)
جب ہم مخالف کانگریس سیاسی اتحادوں یا محاذوں بالخصوص بی جے پی اور دائیں بازو عناصر کے اتحاد کا تصور کریں تو یہ لوگ ہمیشہ کانگریس پر جون 1975 تا مارچ 1977 کے دوران ملک میں نافذ کردہ ایمرجنسی کیلئے تنقید کرتے ہیں اور ان کا الزام ہوتا ہے کہ اس مدت میں کانگریس حکومت نے شہریوں کے بنیادی حقوق معطل کردیئے تھے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ایمرجنی کا دور کانگریس کی 139 سالہ تاریخ کا ایک ناگوار باب تھا لیکن اندرا گاندھی نے اس کیلئے نہ صرف قوم سے معذرت خواہی کی بلکہ اس بات کا عہد کیا کہ ملک میں ایمرجنسی پھر کبھی نہیں دہرائی جائے گی ۔ یعنی ہندوستان میں ایمرجنسی دوبارہ نافذ نہیں کی جائے گی ۔ اندرا گاندھی نے پورے خلوص نیت کے ساتھ عوام سے معذرت خواہی کی اور عوام نے ان کی معذرت خواہی کو قبول کرتے ہوئے ان کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کئے ۔ اس طرح 1977 ء میں کانگریس شاندار اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دستور کی تیاری اور اسے مستحکم بنانے میں کانگریس کا کوئی تعاون نہیں ہے ؟ کیوں نہیں ! ضرور ہے۔ دستور کی دفعہ 368 پارلیمنٹ کو دستور میں ترمیم کا اختیار اور حق دیتی ہے کیونکہ ایک ملک اور ایک قوم مختلف مراحل میں مختلف قسم کے نشیب و فراز سے گزرتے ہیں کیونکہ قوم کو نئے خطرات اور مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس لئے کہ دستور کی تشریح اور از سر نو تشریح یا وضاحت مقدمہ کی سماعت کرنے والے ججس کرتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارا آئین یا دستور ایک زندہ دستاویز ہے جسے قوم کی بدلتی ہوئی زندگی کے مطابق ڈھالا جاتا ہے یعنی دستور کو قوم کی ضرورتوں ،اس کی سہولتوں اور ملک کی ترقی و عوام کی خوشحالی کے عین مطابق ڈھالا جاتا ہے ۔
ترامیم دستور کو استحکام بخشتے ہیں ، اگر راقم الحروف دستور پر پارلیمنٹ میں ہوئے مباحث میں اظہار خیال کرتا تو مجھے کانگریس حکومتوں کی جانب سے دستور میں کی گئیں کچھ ترامیم ضرور یاد آتی ۔ میرے خیال میں یہ وہ ترامیم تھیں جنہوں نے حقیقت میں ہمارے دستور کو مضبوط و مستحکم کیا اور دستور کی تمہید میں اعلیٰ اہداف کو آگے بڑھایا ، خاص طور پر سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف اور مساوات (رتبہ اور موقع کی مساوات) کو آگے بڑھایا اسے فروغ دیا۔
دستور کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1951 اصل میں ایک بنیادی قانون سازی تھی ۔ پہلی ترمیم نے دفعہ 31A اور دفعہ 318 کو شامل کیا ۔ اس طرح اس ترمیم نے جابرانہ جاگیردارانہ اور نظام زمینداری کے خاتمہ کی راہ ہموار کی ، ساتھ ہی لاکھوں کسانوں اور زرعی مزدوروں کی آزادی کا باعث بنی ۔ اس ترمیم نے اصلاحات اراضیات اور اراضیات کی تقسیم میں سہولت فراہم کی۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ دستور کی پہلی ترمیم نے کسی بھی تجارت ، صنعت کاروبار یا خدمات کو شہریوں سے جوڑنے کیلئے چاہے وہ جموی طور پر ہو یا مکمل طور پر اہم کردار ادا کیا اور اس (پبلک سیکٹر) کیلئے قانونی بنیاد فراہم کی۔ دستوری (42 ویں ترمیم) ایکٹ 1976 نے بھی دستور میں کئی تبدیلیاں لائیں لیکن اس کے ذریعہ جو تبدیلیاں کی گئیں، ان میں دفعہ 39-A اور دفعہ 48-A کو یاد رکھا جائے گا ۔ اسی طرح دستوری (52 ویں ترمیم) ایکٹ 1985 بھی اہم رہا جس نے دستور کے دسویں شیڈول کو متعارف کروایا اور یہ شیڈول انحراف (آیا رام گیا رام) کے مسئلہ سے نمٹنے کی پہلی کوشش تھی، اس کے علاوہ دستوری (73 ویں ترمیم) ایکٹ 1992 (74 ویں ترمیم ) ایکٹ 1992 بھی اہم رہے۔