پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
آج کل ملک میں دستوری اتھاریٹیز کا مقابلہ دستور سے ہورہا ہے یعنی دستوری اتھاریٹیز بمقابل دستور والا معاملہ چل رہا ہے۔ اس قول یا اقتباس کو ایڈمینڈبرکے، جارج ستاپنا اور ونسٹن چرچل سے منسوب کیا گیا ہے اور جس ورژن کا اکثر و بیشتر حوالہ دیا جاتا ہے، دراصل یہ ہے کہ وہ لوگ جو ماضی کو یاد نہیں رکھ سکتے، اسے (ماضی) کو دہرانے کے قابل نہیں ہوتے۔ دوسری طرف کارل مارکس کے جو مختلف اقوال ہیں اس میں بہت زیادہ گہرائی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، پہلے ایک المیہ کے طور پر اور دوسری مرتبہ ایک طنز کے طور پر دہراتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ہمارے ملک کے تین آئینی حکام سارے ملک کی توجہ کا مرکز رہے۔ مسٹر جگدیپ دھنکر نائب صدرجمہوریہ ہند و صدرنشین راجیہ سبھا کی پیدائش 1951ء کو ہوئی ،لوک سبھا کے عزت مآب اسپیکر مسٹر اوم برلا کی تاریخ پیدائش کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ 1962ء میں وہ پیدا ہوئے جبکہ مرکزی وزیر قانون و انصاف کرن رجیجو کی پیدائش 1971ء کی ہے۔ اول الذکر شخصیت کو یقینا ایمرجنسی کے دور (1975-77) کا تجربہ رہا ہوگا اور دوسری شخصیت نے ایمرجنسی کے دور سے متعلق سنا اور پڑھا ہوگا اور تیسری شخصیت جنہیں قانون و انصاف کی وزارت تفویض کی گئی۔ ایمرجنسی کی تاریخ پڑھی ہوگی یعنی مطالعہ کیا ہوگا۔ 1967ء میں ایک ناقابل ذکر جائیداد کے مقدمہ میں جو گولکناتھ بمقابلہ ریاست پنجاب تھا۔ عدالت عظمیٰ نے 5 کے مقابلے 6 کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا کہ دستور ہند کے حصہ سوم میں موجود بنیادی حقوق کو پارلیمنٹ منسوخ یا پھر ختم نہیں کرسکتی۔ اس مقدمہ کا اصل مسئلہ پراپرٹی تھا۔ آزادی نہیں اس لئے بحث نظریاتی ہوگئی۔
ناقابل تبدیل خصوصیات
کیسوانندا بھارتی بمقابلہ ریاست کیرالا مقدمہ (1973ء) میں جو فیصلہ دیا گیا، اس میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے خطرہ کی گھنٹی بجنی چاہئے تھی۔ اس مقدمہ میں بھی اصل مسئلہ ’’پراپرٹی‘‘ تھا چنانچہ عدالت نے کیرالا لینڈ ریفارمس ایکٹ (کیرالا قانون اصلاحات اراضی) کو برقرار رکھا اور درخواست گذار کو مقدمہ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس مقدمہ کے فیصلے کی خاص بات یہ تھی کہ عدالت نے دستور کے بنیادی ڈھانچے کے تحفظ اور بنیادی حقوق سمیت دستور میں ترمیم سے متعلق پارلیمنٹ کے اختیار کو بھی برقرار رکھا۔ بنیادی ڈھانچے کی جو چند مثالیں عدالت نے نوٹ کی، وہ متنازعہ تھیں، کون اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ وفاقیت، سکیولرازم اور آزاد عدلیہ دستوری کی بنیادی خصوصیات ہیں، اس مسئلہ پر بحث جاری رہی لیکن یہ گولکناتھ مقدمہ کی بحث سے کم نظریاتی تھی۔
25 جون 1975ء کو نافذ ایمرجنسی کی فوری وجہ ایک ایسا واقعہ تھا جو دستور میں ترمیم کرنے کے پارلیمنٹ کے اختیار سے غیرمتعلق تھا اور یہ ایک انتخابی ٹریبیونل کی جانب سے وزیراعظم اندرا گاندھی کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، اس وقت نانی پالکی والا نے شریمتی اندرا گاندھی کی جانب سے بریف کرنا قبول کیا تھا اور راقم الحروف کو یقین تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ اپیل میں فیصلہ کو کالعدم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، تاہم ایک حد سے تجاوز کرتے ہوئے دستوری ترامیم کے بشمول متعدد اقدامات کئے گئے جو ہندوستان کو ایک آمرانہ اور جابرانہ ریاست میں تبدیل کردیتے۔ صرف عدلیہ ہی ایک دفاعی فصیل کی طرح تھی۔ سچ کہوں تو عدلیہ نے عوام کو ناکام کیا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں جو Lower Point رہا، وہ ADM جبل پور مقدمہ تھا۔ جسٹس ایچ آر کھنہ تنہا آئین میں دی گئیں آزادیوں پر حملے کے خلاف کھڑے رہے۔ شکر ہے کہ ہائی کورٹس میں کچھ ایسے جج صاحبین تھے جنہوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور شخصی آزادی کو برقرار رکھا، بالخصوص مدھیہ پردیش میں جسٹس جے ایس ورما اور آر کے ننکھا اس معاملے میں قابل ذکر ہیں۔
راقم الحروف کا ماننا ہے کہ مسٹر جگدیپ دھنکر ، مسٹر اوم برلا اور مسٹر رجیجو نے 1967ء تا 1977ء کے دور کی تاریخ کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ مسٹر دھنکر دو علیحدہ مسائل کو آپس میں ملا رہے ہیں۔ آیا پارلیمنٹ دستور کی ہر اور کسی بھی دفعہ میں ترمیم کرسکتی ہے اور کہا یہ عدالتی نظرثانی کے دائرہ سے باہر ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 99 ویں دستوری ترمیم کو کالعدم قرار دینے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، کوئی ایسے خیال کا حامل ہوسکتا ہے کہ کیسوانندا بھارتی کیس کا درست فیصلہ کیا گیا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی تھا کہ NJAC مقدمہ کا جو فیصلہ دیا گیا، وہ غلط تھا۔ بے شمار قانونی ماہرین اس خیال کے حامل تھے اور ہیں۔ بدقسمتی سے مسٹر دھنکر کی جانب سے شروع کی گئی بحث نے بہت سے سوالات پیدا کئے جوکہ ایک وفاقی جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان کے آئیڈیا کیلئے اہم ہیں جبکہ وزیر قانون و انصاف مسٹر کرن رجیجو نے کالجیم نظام میں حکومت کیلئے ایک نشست کے مطالبہ کے ساتھ بحث میں الجھ کر الجھن کو مزید الجھا دیا ہے۔ اب خطرہ کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں کہ آئین کو ازسرنو مضبوط کرنے کیلئے ایک مذموم منصوبہ سازی کی جارہی ہے یعنی ایک خصوصی منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ فرض کریں کہ ہم دستور پر پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہیں، مجھے اس سلسلے میں چند سوالات کرنے دیجئے۔
٭ کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اگر ایک ریاست کو تقسیم کیا جائے اور متعدد مرکز کے زیرانتظام علاقہ (جموں و کشمیر) بنائے جائیں۔٭ کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آزادی اظہار خیال، ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے کی آزادی اور کسی بھی پیشہ سے وابستہ ہونے کی آزادی کے ساتھ ساتھ تجارت یا کاروبار کی آزادی کو ختم کردیا جائے۔ ٭ آیا آپ ایسے قانون کو منظور کریں گے جو مرد و خواتین سے غیرمساویانہ سلوک کرے گا، ہندو اور مسلمانوں سے مختلف سلوک روا رکھے یا ایل جی بی ٹی کیو وغیرہ کے حقوق سے انکار کرے گا۔ ٭ آیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دستور میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں ، پارسیوں، جینوں، بدھسٹوں، یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے جن حقوق کی طمانیت دی گئی، وہ ختم کی جائے۔٭ آیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فہرست II (ریاستی فہرست) ساتویں شیڈولڈ سے نکال دی جائے اور مقننہ کے تمام اختیارات پر پارلیمنٹ میں توجہ مرکوز کی جائے۔٭ کیا آپ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ تمام ہندوستانیوں کیلئے ایک خصوصی زبان کو لازمی قرار دیا جائے۔٭ کیا آپ ایسے قانون کو منظوری دیں گے۔