پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ہندوستان کا دستور دنیا کے بہترین دستوروں میں شمار کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر دستور ہند یا آئن ہند کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن فی الوقت یہ سوالات بھی پیدا ہورہے ہیں کہ آخر حکومت پچھلے 11 برسوں سے بڑے پیمانہ پر دستوری ترامیم کیوں کررہی ہے ؟ کیا دستوری ترامیم کے پیچھے اس کی نیت اور ارادے ٹھیک ہیں۔ بہرحال دستور کی دفعہ 368 ہماری پارلیمنٹ کو آئینی ؍ دستوری ترامیم کا اختیار عطا کرتی ہے ، دفعہ 368 کی ذیلی دفعہ (2) کو کچھ یوں پڑھا جاتا ہے۔
368(2) اِس دستور میں کسی بھی قسم کی ترمیم Amendment صرف ایک بل پیش کرنے کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور جب بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جملہ ارکان کی اکثریت کی تائید ( جو کسی بھی طرح دو تہائی اکثریت سے کم نہ ہو ) اور ارکان کی دو تہائی اکثریت سے جب وہ ترمیمی بل منظور ہوجائے تو اسے منظوری کیلئے صدرجمہوریہ کے پاس بھیجا جائے گا ، اس طرح دستور میں ترمیم ہوجائے گی ۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فی الوقت قومی جمہوری اتحاد ( این ڈی اے ) کے پاس دستوری ترمیمی بل منظور کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت ہی نہیں ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ لوک سبھا میں قومی جمہوری اتحاد کی عددی طاقت 293 ہے ( یعنی لوک سبھا کے 543 ارکان میں این ڈی اے ارکان کی تعداد 293 ہے ) جبکہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کو جملہ 245میں سے 133نشستیں حاصل ہیں۔ یہاں ایک اور بات آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ارکان موجود ہوں اور رائے دہی میں حصہ لیں تب این ڈی اے کو دونوں ایوانوں میں کوئی بھی بل منظور کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت کیلئے درکار جادوئی عدد حاصل نہ ہوسکے گا ۔ واضح رہے کہ این ڈی اے کے برعکس لوک سبھا میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 250 اور راجیہ سبھا میں 112 ہے ، ایسے میں اگر لوک سبھا میں وہ 182 ووٹ اور راجیہ سبھا میں 82 ووٹ بل کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو بل منظور نہیں ہوگا لیکن حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں این ڈی اے مخالف نہیں ہیں۔
مثال کے طورپر وائی ایس آر سی پی ، بی جے ڈی ، بی آر ایس اور بی ایس پی اور چند چھوٹی جماعتیں ہیں جنھوں نے عام طورپر این ڈی اے حکومت کی تائید و حمایت کی ہے اور ماضی میں کئی مرتبہ ایسا دیکھا گیا ہے ۔ ہاں ایک اور بات آپ لوگوں کے سامنے واضح کردوں کہ کل ہند ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایسی اپوزیشن جماعتیں ہیں جنھوں نے این ڈی اے کی مخالفت کی ہے چاہے وہ INDIA بلاک کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں یہ ایسی جماعتیں ہیں جن کی تائید و حمایت مسئلہ Issue کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔
مایوسی پر مبنی جوا : یہ وہی صورتحال ہے جس میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے اور وہ یہ ہے کہ دستوری ترمیمی ( 130 ویں ترمیمی بل ) بل 2025 ء کو پیش کئے جانے کے بعد حکومت نے فوری طورپر اسے جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کو روانہ کردیا ہے تاکہ اس پر غور کیاجاسکے ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا بل ہے اور جس کا مقصد بھی واضح ہے ۔ یہ ایسا بل ہے جو وزیراعظم ، چیف منسٹرس ، مرکزی وزراء کو جو ایسے کسی سنگین فوجداری جرم میں گرفتار کئے گئے ہوں جس کی سزاء 5 سال یا اس سے زائد عرصہ تک ہوسکتی ہے اور جنھوں نے 30 دن جیل میں گذاریں ہوں ، اُنھیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو 30 دنوں میں نہ تحقیقات مکمل ہوگی اور نہ ہی چارج شیٹ داخل کی جائے گی ا س طرح اس مختصر مدت میں الزامات بھی وضع نہیں کئے جاسکیں گے ۔ اس کے باوجود 31 ویں دن محروس وزیر کو خدمات سے برطرف یا عہدہ سے ہٹائے جانے کے یہ کہتے ہوئے احکامات جاری کئے جائیں گے کہ تم ایک مجرم ہو ۔
حیرت اس بات پر ہیکہ بی جے پی اس بات کا بگل بجارہی ہے کہ یہ ترمیمی بل دراصل دستوری اور سیاسی اخلاقیات کا نقطۂ عروج ہے ۔ اس ضمن میں بی جے پی یہ دلیل دیتی ہے کہ آیا ایک بدعنوان وزیر کو برطرف کرنے سے زیادہ نیک مقصد اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک وزیر ( یا چیف منسٹر ) جیل سے حکومت چلاسکتا ہے ؟ وہ لوگ جو اس بل کو ہاں کہتے ہیں، اس کی تائید کرتے ہیں، اُن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ سچے محب وطن ہندوستانی اور قوم پرست ہیں اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہوئے ’’نا‘‘ کہتے ہیں اُنھیں بی جے پی اور اس کے حامی قوم دشمن ، ارین نکسل یا پاکستانی ایجنٹس کہتے ہیں۔ بی جے پی کے دعوؤں کے متضاد : این ڈی اے حکومت کے تحت فوجداری قوانین نے کس طرح کام کیا اس کا عام تجربہ فی الوقت بڑا خوفناک رہا ۔
l عملی طورپر تمام قوانین کو بی جے پی نے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا ، یہاں تک کہ جی ایس ٹی قوانین کو بھی ۔
l کوئی بھی پولیس آفیسر ( جس میں ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے) کسی بھی ایسے شخص کو بنا ء کسی وارنٹ کے گرفتار کرسکتا ہے جس پر صرف کسی جرم میں ملوث ہونے کا شبہ ہو یا شک ہو ۔
l تحت کی عدالتیں ضمانت دینے سے انکار کرنے کی روش پر قائم ہیں حالانکہ جسٹس کرشنا ایئر نے واضح طورپر کہا ہے کہ Bail is the Rule , Jail is th Exception
l ہائیکورٹس پہلی سماعت میں ضمانت منظور نہیں کرتی اور استغاثہ کے مختلف بیانوں سے سماعت کو طوالت دینے کے بعد 60 تا 90 دنوں بعد ضمانت منظور کی جاسکتی ہے ۔
l اس طرح کی افسوسناک صورتحال کے نتیجہ میں سپریم کورٹ میں ہر دن ضمانت کی ہزاروں درخواستیں پہنچتی ہے اور اس طرح عدالت عظمیٰ قید سے آزادی پانے کا پہلا آسرا بن چکی ہے ۔
l اس کے علاوہ بل میں وزیراعظم کو شامل کرنا بھی عجیب و غریب بلکہ مضحکہ خیز ہے ۔
موقف پر سختی سے ڈٹے رہو : انڈیا بلاک اور ترنمول کانگریس بآسانی ارکان کی اتنی تعداد جوڑ سکتے ہیں کہ بل کو ناکامی سے دوچار کردیں ، اس کے برعکس قومی جمہوری اتحادی حکومت کو اس امر کا یقین ہے کہ وہ 130 ویں ترمیمی بل پاس کروانے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لے گی ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کچھ ایسی چالیں یا TRICKS ہوں گی جس کو بروئے کار لاتے ہوئے بعض اپوزیشن جماعتوں یا پھر اُن کے ارکان پارلیمان کو اپنی تائید و حمایت پر مجبور کردے گا یا پھر وہ کوئی ایسا مکر کرے یا بڑی مکاری کے ساتھ ایسی حکمت عملی اپنائے کہ چند اپوزیشن ارکان پارلیمان کو غائب کردیا جائے اور پھر حکومت کو مذکورہ بل بآسانی منظور کروانے کا موقع مل جائے یا پھر حکومت کے پاس کوئی ایسی حکمت عملی یا طاقت ہو جو راقم الحروف کی فہم سے بالاتر ہو ۔ اب وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے بگل بجادیا ہے اور گودی میڈیا نے اسے نشر بھی کردیا ہے اور جائنٹ سلیکٹ کمیٹی اس مسئلہ کو اس طرح زندہ رکھ سکتی ہے جیسے ون نیشن ۔ ون الیکشن وغیرہ ۔ چنانچہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی 130 ویں ترمیمی بل کے مسئلہ کو بہار (2025) آسام ، کیرا، ٹاملناڈو اور مغربی بنگال اسمبلی انتخابات 2026 کے بعد تک زندہ رکھے گی ۔
انڈین ایکسپریس نے اپنی اشاعت مورخہ 22 اگسٹ 2025 ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا کہ 2014 ء سے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 12 وزراء کو بناء ضمانت محروس رکھا گیا اور بعض کو کئی مہینوں تک حراست میں رکھا گیا ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2014 ء سے 25 ایسے اپوزیشن قائدین نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی جن کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اُن میں سے 23 کو الزامات سے بری کردیا گیا اور جہاں تک مجھے یاد ہے 2014 ء سے کسی بھی بی جے پی وزیر کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔ اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو ہندوستان بیلا روس ، بنگلہ دیش ، کمبوڈیا ، کیمرون ، کانگو (DRC) ، میانمار ، نکارگوا ، پاکستان ، روس ، رؤانڈا ، یوگانڈا، ونیزویلا، زابیا اور زمبابوے جیسے ملکوں میں شامل ہوگا ۔ جہاں اپوزیشن قائدین کو جیلوں میں ڈالنا عام بات ہے۔