دستور ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی وراثت اور ریزرویشن بی جے پی کیلئے مصیبت

   

وی یادو
سال 2024 ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے جاتے جاتے وہ اپنے دامن میں کچھ تلخ اور کچھ خوشگوار یادوں کو سمیٹ کر لے گیا۔ جہاں تک ہمارے ملک کی سیاست کاسوال ہے اگر اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو بلاشک و شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2024ء کے دوران ہندوستانی سیاست میں دستور اور معمار دستور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر چھائے رہے یہاں تک کہ عام انتخابات سے لیکر ہریانہ ، مہاراشٹرا ، جھارکھنڈ جیسی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی دستور اور اس کے تحفظ کا مسئلہ چھایا رہا ۔ کانگریس کی زیرقیادت انڈیا اتحاد نے دستور ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی وراثت اور دلتوں کو ملازمتوں ، تعلیمی اداروں اور سیاسی شعبوں میں تحفظات ( ریزرویشن ) کو بی جے پی اور آر ایس ایس سے خطرہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پرزور ۔ پرشور انداز میں عوام کو یہ بتاکر حکمراں بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا کہ بی جے پی نہ صرف دستور ہند تبدیل کرنے کی خواہاں ہے بلکہ دلتوں کو ملک میں آج جو ریزرویشن دیئے جارہے ہیں جن سے اُن کی زندگیوں میں ایک صحتمند انقلاب برپا ہوا صحتمندتبدیلیاں رونما ہوئی ہیںاس ریزرویشن کو بھی ختم کرنے کی خواہاں ہے ۔
اپوزیشن کی جانب سے جیسے ہی یہ مسئلہ اُٹھایا گیا بی جے پی اور اُس کے لیڈران پریشان ہوگئے کچھ نے بوکھلاہٹ کاشکار ہوکر عجیب و غریب بلکہ غیرشائستہ لب و لہجہ استعمال کیا ۔ بی جے پی کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ ہندوتوا کے مسئلہ پر بآسانی ووٹ حاصل کرلے گی اور 400 سے زائد پارلیمانی نشستوں پر اسی کا قبضہ ہوگا جس کے بعد وہ من مانی اقدامات کرے گی تب ہی تو وزیراعظم مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے چھوٹے بڑے بی جے پی لیڈروں نے اب کی بار 400پار کا نعرہ لگایا اور سارے ہندوستان نے دیکھا کہ بعد میں بی جے پی نے ہندوتواء کے مسئلہ پر دفاعی انداز اختیار کیا ۔ اپوزیشن دستور کے تحفظ ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی وراثت اور ریزرویشن کو درپیش خطرات کو محض انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھے گی تو یہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہوگا جبکہ دستور اور بابا صاحب امبیڈکر پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب لوک سبھا کا کوئی الیکشن دستور اور اس کی دفعات کے اردگرد لڑا گیا ہو۔
لوک سبھا انتخابات کی مہم میں جب اپوزیشن نے دستور کے خطرہ میں ہونے اور اس میں بنیادی تبدیلی کئے جانے کے خدشات کو انتخابی موضوع بنایا تب بی جے پی نے اچھی طرح محسوس کیا کہ اس کا ہندوتوا مسئلہ ؍ موضوع کمزور ہورہا ہے اور پھر وہ خود یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو گمراہ کررہی ہیں ۔ بی جے پی تو دورکی بات ہے اگر امبیڈکر بھی آجائیں تو دستور کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ کئی بی جے پی لیڈروں نے متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس مرتبہ (2024 کے عام انتخابات میں ) بی جے پی کو 400 سے زیادہ نشستیں حاصل ہوتی ہیں تو دستور تبدیل کردیا جائے گا ۔ بی جے پی قائدین کے مخالف دستور بیانات پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کسی قسم کی وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی ۔
درج فہرست طبقات و قبائل اور دلتوں کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ اگر بی جے پی دستور تبدیل کرتی ہے تو جس دستور کے تحت اُنھیں پارلیمنٹ اسمبلیوں ، مقامی اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ اور ملازمتوں میں جو ریزرویشن دیئے جارہے ہیں وہ ختم کردیئے جائیں گے ، نتیجہ میں اُن کی نہ صرف سیاسی شعبہ بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی اہمیت گھٹ جائے گی ۔ ایک اور اہم بات یہ رہی کہ انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن نے جہاں دستور ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ریزرویشن کو انتخابی موضوع بنایا وہیں پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بعد اپوزیشن نے دستور اور ڈاکٹر امبیڈکر پر جاری بحث کو لوک سبھا میں پہنچادیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے نو منتخب اپوزیشن ارکان نے ایوان کے اندر اور باہر اپنے ہاتھوں میں دستور اور اُس کی کاپیوں ، معمار دستور کی تصاویر لے کر جئے بھیم کے نعرے بلند کئے جس کی گونج سارے ملک میں سنی گئی ۔
ہندوستان میں دستور کے تئیں عوام کس طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مذہبی رہنما کی طرح مذہبی رسومات انجام دی جبکہ شنکر اچاریہ جیسے اہم ہندو مذہبی رہنماؤں کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ بی جے پی نے رام مندر کا افتتاح کرنے کے بعد سمجھ لیا تھا کہ اب لوک سبھا انتخابات میں وہ مثالی اور یادگار کامیابی حاصل کرے گی لیکن ساری دنیا نے دیکھاکہ فیض آباد ( ایودھیا ) کی لوک سبھا نشست پر سماج وادی پارٹی کے دلت امیدوار اودیش پرساد نے بی جے پی امیدوار کے خلاف شاندار جیت درج کی ۔ یہی نہیں کاشی سے نریندر مودی بھی ہارتے ہارتے بچ گئے ورنہ اُن کی شکست بھی یقینی تھی ۔ بی جے پی کو اب یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ دستور ہند میں مساوات ، آزادی اور اخوت کی جو اقدار ہیں وہ ہندوتوا کی سیاست سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتی ۔