کار پٹیل
ہمارے ملک میں ہر کسی کو حقِ آزادیٔ مذہب حاصل ہے، دستور نے ہندوستانی شہریوں کو اس بات کی اجازت دی ہے اور اس بات کا بنیادی حق فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرسکتے ہیں لیکن بی جے پی حکومت میں ہمارا ملک ایک غیر معمولی ملک بن چکا ہے جہاں مذہبی کی تبلیغ ایک بنیادی حق ہے اور فوجداری جرم بھی ہے اس لئے ہم نے لفظ غیرمعمولی کا استعمال کیا ہے۔ فی الوقت یہ سوال گردش کررہا ہے کہ ہندوستان میں عوام کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟ یعنی کیا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے عقیدہ اپنے مذہب کی دعوت دیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگ آسانی سے اپنے مذہب اور عقیدہ کو تبدیل کرنے ( تبدیلی مذہب ) کا حق رکھتے ہیں ؟ ہمارا دستور اس طرح کے سوالات کے جواب ہاں ! میں دیتا ہے لیکن قانون ’’ نہیں‘‘ کہتا ہے۔ ایک بنیادی حق کی تعریف و تشریح اس سے کی جاتی ہے جسے ریاست کی طرف سے تجاوزات سے اعلیٰ سطح کا تحفظ حاصل ہو لیکن دستور کی دفعہ 25 ( اس دفعہ کے تحت آزادانہ طور پر مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا حق ہندوستانی شہریوں کو دیا گیا ہے ) کو ایسا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اصل میں دستور ہمیں بتاتا ہے کہ ہم پروپگنڈہ کرنے کیلئے آزاد نہیں لیکن جب ہم ایسا کرتے ہیں تو پولیس ہمارے خلاف کارروائی کرتی ہے یہاں تک کہ ہمیں گرفتار کرکے لے بھی جاتی ہے۔ جاریہ سال 11 جولائی کو یہ اطلاع ملی تھی کہ احمد آباد ہائی کورٹ نے سرینواس راؤ نائیک نامی ایک شخص کی ضمانت اس ریمارکس کے ساتھ مسترد کردی کہ دستور ہر فرد کو اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے اس پر چلنے یا عمل کرنے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے تاہم ضمیر اور مذہب کی آزادی کے انفرادی حق کو مذہب تبدیل کرنے کے اجتماعی حق کے طور پر نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔
اگر ہم برصغیر کا جائزہ لیتے ہیں تو نیپال کسی بھی طرح تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں دیتا جبکہ پاکستان میں وہی جملہ ادا کیا جاتا ہے جو ہندوستان میں ادا کیا جاتا ہے اسی پابندیوں کے ساتھ جس طرح تبدیلی مذہب کے معاملہ میں ہندوستان میں پابندیاں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مذہب کے معنی آزادی نہیں ہیں جیسا کہ دیانتدارمبصر یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی نہیں ہے یعنی تبدیلی مذہب کی آزادی نہیں ہے لیکن جن شخصیتوں نے آئین کی تدوین کی ہے ان کا مقصد ایسا نہیں تھا وہ تو چاہتے تھے کہ ملک میں ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہو، تبدیلی مذہب کا حق حاصل ہو۔ وہ اپنی پسند کا عقیدہ اور مذہب اختیار کرے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مذہبی آزادی پر دستور ساز اسمبلی کی بحث 6 ڈسمبر 1948 کو ہوئی تھی۔ اقلیتی کمیٹی اور بنیادی حقوق کی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اس بحث کا انعقاد عمل میں آیا جس میں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث ہوئی اور پھر باضابطہ ایک متن تیار کیا گیا جو آج دفعہ 25 کی شکل میں ہمارے یہاں موجود ہے۔ یہاں کلیدی لفظ ’’ پروپگٹ ‘‘ ہے جس کے معنی پھیلانے اور فروغ دینے کے ہیں ساتھ ہی افزائشِ نسل کے معنی بھی آتے ہیں۔ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے جس میں وہ سابق میں اس لفظ پر بحث کی وہ تبدیلیوں کا تھا خاص طور پر عیسائیوں کے ذریعہ کئے جانے والے مذہبی تبدیلی سے متعلق تھا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک ہندو قدامت پسند گجرات سے تعلق رکھنے والے مسٹر کے ایم منشی اس گروپ کا حصہ تھے جو حتمی متن پر پہنچا اور انہوں نے لفظ ’ پروپگٹ‘ کے بارے میں کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس لفظ پر عیسائی برادری نے سب سے زیادہ زور دیا اس لئے نہیں کہ وہ بڑے جارحانہ انداز میں لوگوںکا مذہب تبدیل کرانا چاہتے تھے بلکہ لفظ ’’ پروپگٹ‘‘ ان کے بنیادی اُصولوں و آداب کا بنیادی حصہ ہے اور جب تک مذہب‘ مذہب ہے ضمیر کے آزادانہ استعمال سے تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہیئے۔ منشی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و اشاعت کے حق کے خیال سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ان کے مطابق ’’جو بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ صرف اور صرف قائل کرنے کا نتیجہ ہوتی ہیں نہ کہ مادی فوائد کی وجہ سے۔ اس بات کو نوٹ کریں کہ تبدیلی کو ہمیشہ تبلیغ و اشاعت کی وجہ کے طور پر قبول کیا گیا۔
بنیادی حقوق پر عبوری رپورٹ مورخہ یکم مئی1947 میں انتھونی نے کمیٹی سے بات چیت کی اور کچھ یوں کہا ’’ میری برادری ( وہ ایک اینگلو انڈین تھے ) پروپگیٹ نہیں کرتی ہم دوسروں کا مذہب بھی تبدیل نہیں کراتے نہ ہی اپنا مذہب ترک کرکے دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں لیکن میں اس بات کی قدر کرتا ہوں کہ لاکھوں عیسائی اپنے مذہب کی تبلیغ کے اس حق پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انتھونی ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے اسکولوں کے جال یا نیٹ ورک کے بانی ہیں ۔ انہوں نے اس ضمن میں اکثریت کو مبارکباد دی کہ اس کے متنازع کردار کے باوجود الفاظ ’’ پروپگنڈہ کرنا ‘‘ ایک ایسا حق ہے جسے عیسائیوں کے حقوق میں سب سے زیادہ بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔
دوسری طرف ٹی ٹی کرشنما چاری کہتے ہیں کہ دلتوں نے اپنا ہندو مذہب ترک کرکے عیسائیت اس لئے قبول کیا کیونکہ وہاں انہیں ایک مقام، ایک درجہ عطا کیا گیا۔ ایسے میں اگر ہندو مذہب میں اصلاحات متعارف کروائے جاتے تو اس قسم کی مذہبی تبدیلیوں کو روکا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا جو حق ہے ہندوؤں اور آریہ سماجیوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے وہ اس قانون کے جو الفاظ ہیں اس کے تحت تبدیلی مذہب کی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے آزاد ہیں۔ تبدیلی مذہب کی ان سرگرمیوں کو وہ شدھی کہتے ہیں۔ یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ لفظ ’’ پروپگٹ‘‘ کو تمام نے ایک حق کے طور پر سمجھا چنانچہ کے ایم منشی کے الفاظ میں عوام کے اپنے مذہب‘ اپنے عقیدہ میں شامل ہونے کا قائل کرنا بھی تبدیلی مذہب ہے لیکن ہندوستان میں اس کی بجائے عملاً کیا ہوتا ہے جیسا کہ ہم اپنے اطراف و اکناف دیکھتے ہیں کہ ریاست نہ صرف ایک مذہب کی تبلیغ سے متعلق حق ختم کرنے کیلئے آگے آتی ہے بلکہ کسی فرد کے تبدیلی مذہب کے حق کو بھی ختم کرنے اقدامات کرتی ہے۔
کسی کے مذہب کی تبلیغ و اشاعت سے متعلق دستور ساز اسمبلی نے اپنے متن میں جو حق دیا اس کی صرف اوڈیشہ کے رہنے والے ایک 26 سالہ شخص نے مخالفت کی ، وہ شخص رگھوناتھ مشرا کا بھائی لوک ناتھ مشرا تھا۔ مسٹر رگھوناتھ مشرا بعد میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے عہدہ چیف جسٹس پر فائز ہوئے ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہوگا کہ لوک ناتھ مشرا کے چچا نے بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف انڈیا کے عہدہ پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ لوک ناتھ مشرا نے کہا تھا کہ اسے مذہب کی تبلیغ و اشاعت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تبلیغ کرنے دیجئے لیکن میں صرف یہ جانتا ہوں کہ آئین اسے بنیادی حق کے طور پر نافذ نہ کرے اور حوصلہ افزائی کرے۔