دستور کی تبدیلی کا جنون

   

پی چدمبرم سابق مرکزی وزیر داخلہ
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اپنے قیام سے ہی ہندوستان کو ہندو ساشٹرا بنانے کا مقصد لئے چل رہی ہے اور اس مقصد میں وہ پختہ بھی ہے جہاں تک اس کے ہندو راشٹر کے تصور کا سوال ہے اس تصورکو شائد اس نے مقدس رومن سلطنت (800-1800CE) لیا یا پھر خلافت اسلامیہ (632-1258 ہجری) سے اخذ کیا ہے۔ آر ایس ایس کا ہندو راشٹر سے متعلق جو تصور ہے وہ ایک ایسی قوم ایسے ملک کی وکالت کرتا ہے جو ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتابوں کے مطابق چلایا جائے۔ اس ضمن میں آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی دوسری جماعتیںاور تنظیمیں منوسمرتی کا نام لیتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئی لیکن وہ اپنے مقصد اور راہ سے پیچھے نہیں ہٹے گی بلکہ فی الوقت وہ اپنی اس راہ پر بڑی سرگرمی کے ساتھ گامزن دکھائی دے رہی ہے بلکہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرے گی۔ اس کی یہ فطرت ہے کہ موقع کا وہ پورا پورا فائدہ اٹھاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو راشٹرا کے کئی ایک ذیلی مقاصد ہیں مثال کے طور پر کشمیر کو دستور کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی منسوخی( آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی کی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے آر ایس ایس کے کام اور مقصد کو آگے بڑھایا ہے)۔ اترپردیش کے ایودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر (بابری مسجد کو شہید کرکے اس کے مقام پر رام مندر تعمیر کردی گئی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمی نے عقیدہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا اور جس کے لئے ساری دنیا میں حیرت کا بھی اظہار کیا گیا) اسی طرح وارانسی اور متھرا جیسے مقامات پر ہندوؤں کے مقدس مقامات ہونے کے دعوے اور معمار دستور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے مدون کردہ دستور یا آئین ہند کو منوسمرتی کی بنیاد پر تبدیل کرنا بھی اس کے اہم مقاصد میں شامل ہیں۔
آر ایس ایس کے نظریہ کی بنیاد: اگر دیکھا جائے تو جدید قومی ریاست کا تصور نظریہ شہریت پر مبنی ہے، یعنی اس میں شہریوں کو ہی سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہتی ہے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس جس ہندو راشٹر کی بات کرتی ہے وہ مذہب کی بنیاد پر ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرنچالک ایم ایس گولوالکر تھے جنہوں نے (1940-1973) بحیثیت تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی جنہیں آر ایس ایس والنٹرس گروجی کہا کرتے تھے انہوں نے اپنی کتاب We Or Our Nationhood Defined میں کچھ یوں لکھا
’’دستور ہند میں بسنے والے غیر ملکی نسل کے لوگوں کو جو ہندو تہذیب و تمدن اور ثقافت و زبان کو اپنانے سے انکار کرتے ہیں انہیں ہندو مذہب اس کی ثقافت، اس کے نظریہ اور رسم و رواج کا احترام کرنا ہوگا، ان کی عزت و تعظیم کرنی ہوگی اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں اپنی علیحدہ شناخت کو ترک کرنا ہوگا اور پوری طرح ہندو قوم میں ضم ہو جانا ہوگا یا پھر وہ اس ملک میں رہ سکتے ہیں لیکن انہیں ہندو قوم کے تابع بن کر رہنا ہوگا، وہ کسی چیز پر دعویٰ نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی کسی بھی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ شہریت کے حق سے بھی محروم رہیں گے (اپنی کتاب میں انہوں نے ایک طرح سے صاف صاف طور پر لکھ دیا کہ بیرونی نسل کے لوگوں کو ہندو مذہب کا حصہ بننا چاہئے یا پھر اس ملک میں شہریوں کو جو حقوق حاصل ہیں ان سے محروم ہونا چاہئے)۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایم ایس گولوالکر آر ایس ایس نظریات کے ترجمان تھے، اور وہ ہندو راشٹر اور غیر ہندوؤں سے متعلق اس سوچ کے بانی تسلیم کئے جاتے تھے۔ واضح رہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت یا شواہد نہیں ہیں کہ آر ایس ایس نے ہندو راشٹرا پر اپنے موقف میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ اس کے متضاد آر ایس ایس نے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس)، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی کھل کر تائید و حمایت کی۔ آر ایس ایس بی جے پی حکومت کی ان کوششوں کی بھی تائید کرتی ہے، ان کی حمایت کرتی ہے جس کے تحت ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن بالخصوص بنگلہ دیشی باشندوں اور روہنگیائی مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ آپ سب یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت نے شہریت ترمیمی قانون CAA اور این آر سی اس انداز میں بنایا ہے کہ اس کا نشانہ صرف مسلمان بنیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ این آر سی کے اطلاق نے ہزاروں نہیں لاکھوں ہندوؤں کی غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے نشاندہی کی جس کے نتیجہ میں حکومت کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 2019 میں دوسری مرتبہ اقتدار پر فائز ہونے کے فوری بعد مودی نے جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے دفعہ (d) (1) 370کا استعمال کیا جو بلاشبہ مشکوک فیصلہ قرار دیا گیا (اپوزیشن اور ماہرین قانون سے لے کر کشمیری عوام نے یہ کہہ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی کے پیچھے حکومت کی نیت کچھ اور ہے)۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں کہا کہ دستور میں ترمیم کے لئے دفعہ 368 کے تحت جو طریقہ کار ہے اس پر عمل نہ کرنے کے باعث یہ قدم آئنی نہیں تھا پھر بھی عدالت عظمی نے یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت کا صدر جمہوریہ کے ذریعہ دفعہ 370(1)(d) کا استعمال کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر آئین کی تمام دفعات کا نفاذ حقیقت میں دفعہ 370 کے خاتمہ یا منسوخی کے مترادف ہے تاہم عدالت نے اس ضمن میں کئی اہم سوالات کے جوابات دیئے بنا چھوڑ دیا۔ ایک بات ضرور ہے کہ حکومت آرٹیکل 370 کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
بی جے پی کی 400 نشستوں کے حصول میں ناکامی : عام انتخابات 2024 کی بات کریں تو یہاں آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اپریل 2024 میں جب نریندر مودی کو یہ پختہ یقین ہوگیا کہ ان کے دس سالہ دور حکومت کا سنہرا دور (امرت کال) شروع ہوگیا ہے تب انہوں نے عام انتخابات (لوک سبھا انتخابات) میں بی جے پی کے لئے 400 نشستوں پر کامیابی کا ہدف رکھا، دوسری طرف INDIA اتحاد نے ’’دستور بچاؤ‘‘ کے طاقتور نعرہ کے ساتھ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کا زور دار مقابلہ کیا۔ اپوزیشن کے دستور بچاؤ نعرہ نے کمال کیا اور خاص طور پر ان لوگوں میں بہت مقبول ہوا جنہوں نے بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کیا لیکن سخت شرئط کے ساتھ اس طرح ان لوگوں نے بی جے پی کو صرف 240 بشستوں پر روک دیا۔ یعنی بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے سے قاصر رہی اور پھر 2024 کے عام انتخابات کا نتیجہ مسٹر نریندر مودی کو آئین میں ترمیم کرنے سے روکنے والا اہم عنصر بن گیا ورنہ بی جے پی نے پتہ نہیں کیا کیا منصوبے بنا لئے تھے۔ ہاں ! یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بی جے پی کی ناکامی کے باوجود آر ایس ایس اپنے قدم آگے بڑھاتے جارہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شائد آر ایس ایس کی ایما پر بی جے پی نے ون نیشن ون الیکشن کا فرضی (جعلی) جمہوری آئیڈیا پیش کیا اور اس کے لئے پہلے ہی سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق سرکردہ رپورٹ حاصل کی گئی اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ حکومت نے ONOE کا جائزہ لینے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے ملک بھر کا دورہ کیا تاکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین مختلف شعبوں کے ماہرین اور عوام کے خیالات سے آگہی حاصل کی جاسکے تاکہ تب تک اسے (حکومت) کو ONOE بل پاس کرنے کا وقت مل جائے۔ حال ہی میں دوسرا تیر آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری مسٹر دفاتریہ ہوسابالے نے چلایا۔ انہوں نے دستور کی تمہید میں سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ کو غیر دستوری اضافہ قرار دیا۔ مسٹر ہوسابالے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دستور کی تمہید سے مذکورہ الفاظ کو حذف کردے جس کی کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں نے مذمت کی۔ حد تو یہ ہیکہ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے بھی اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے یہ دو الفاظ زخم کو تازہ کرنے کے مترادف ہیں، بہرحال آر ایس ایس جنرل سکریٹری کے مطالبہ نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور جب نائب صدر نے اس میں مداخلت کی تب لوگوں نے سخت تعجب و حیرت کا اظہار کیا۔
فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے کی کوشش : دستور کی تمہید میں سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ خاص طور پر لفظ سیکولر ہندو راشٹر کے حامیوں کے لئے ناقابل قبول ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت کثیر لسانی ہمہ مذہبی اور جمہوری ملک سیکولر رہ کر اپنی بقاء کو یقینی بناسکتا ہے؟ بی جے پی اور آر ایس ایس لفظ سیکولر اور سوشلسٹ کی تمہید دستور میں موجودگی پر لاکھ اعتراض کرلے لیکن یہ بھی حقیقت انہیں یاد رکھنی چاہئے کہ عدالت عظمی نے سال 1973 میں سیکولرازم کو دستور کی ایک اہم اور بنیادی خصوصیت قرار دیا تھا اور سوشلزم کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ریاستی پالیسی کے رہنمایانہ ہدایتی اصولوں میں شامل کیا گیا (دفعہ 36 تا 51 )