محمد رؤف الدین ایڈوکیٹ
چیف منسٹر ریاست تلنگانہ اور صدر ٹی آر ایس قابل مبارکباد ہے جنہوں نے NRC-CAA اورNPR کے حوالے سے آخرکار اپنی پالیسی کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک فرقہ کو قانون سے علحدہ رکھنا دراصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی میں اس نئے کالے قانون کے خلاف قرار داد منظور کرنے کے سی آر کا اعلان اور سپریم کورٹ کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ جب سے کہ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی مرکز میں سرکار بنی ہے 2014 ء سے 2020 ء کے درمیان دستور ہند کی مسلسل خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف غیر قانونی غیر دستوری اور دلسوز بیانات دیتے ہوئے نہ صرف ان کی دل آزاری کی جارہی ہے بلکہ انہیں اپنے ہی ملک سے باہر کردینے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ بی جے پی کے سکنڈ گریڈ چمچوں کے ذریعہ یہ کہلایا جارہا ہے کہ دنیا میں 150 مسلم ممالک ہیں ، وہ وہاں ہجرت کرسکتے ہیں ۔ یہ بھارت ہندوؤں کا ملک ہے ، یہاں پر مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ آر ایس ایس جو کہ ایک فاشسٹ تنظیم ہے ، اس کے دو سپاہی بی جے پی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں جو کہ مرکز میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ بنے ہوئے ہیں، مسلسل مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ بھی مسلمانوں کے خلاف اس محاذ آرائی میں نریندر مودی اور امیت شاہ پر سبقت لے جانے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
آر ایس ایس کا نظریہ اور بی جے پی کا عمل ہندوستان کی یکجہتی اور سالمیت کیلئے ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں ۔ یہ لوگ خود کو ہندوؤں کا چمپین ظاہر کرتے ہوئے اور پاکستان کا نام استعمال کرتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں بری طرح تقسیم کردینے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں سارے دیش میں بدامنی پھیلا کر ایک خانہ جنگی پیدا کردیں جس کے نتیجہ میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور ہندوستان تباہ ہوجائے گا ۔ یہ ہے انگریزوں کی پالیسی جو 1947 ء میں ہمارے ملک کو چھوڑنے سے پہلے ایک ایسی تنظیم کی بنیاد ڈال دی جو ان کے بعد ان کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کو برباد کردیں۔
بظاہر ہندو توا کا نعرہ ، رام مندر کی تعمیر ، ہندو راشٹرا کے بنانے اور ہندوؤں کو کٹر ہندو دیش بنانے کے مصنوعی دعووں اور پروپگنڈہ کے ذریعہ اپنے آر ایس کے ارادوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کوئی قوم پرست تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی بی جے پی کے عمل میں کوئی قوم پرستی نظر آتی ہے بلکہ یہ تنظیمیں مذہب کے نام پر قوم کو تقسیم کرنے اور برباد کرنے پر مائل نظر آتی ہیں۔ ہندو بھائیوں کو جتنا بے وقوف بنانا تھا وہ تو ہوچکا اور بی جے پی نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت حاصل کرچکی لیکن مابعد جس تیزی سے انہوں نے نئے نئے قانون منظور کرنا شروع کیا اور پھر جب NRC-CAA اور NPR کی باری آئی تب تک مسلمانوں دیگر اقلیتوں ، دلتوں، پسماندہ طبقات اور عام ہندوؤں کو ہوش آگیا اور انہوں نے سوچا کہ بی جے پی کی اصل پالیسی کیا ہے ؟ وہ ہماری عوام اور دیش کے ساتھ کیا بھیانک کھیل کھیل رہی ہے ۔ چنانچہ اب سارے ملک میں اس حکومت کی پالیسی کے خلاف زبردست مظاہرے کئے جارہے ہیں ۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔ یہ حکومت دہلی ، اترپردیش ، کرناٹک اور آسام میں اپنی ظالم پولیس کے توسط سے عوام پر بے پناہ ظلم کر رہی ہے اور خاص کر مسلم مظاہرین کو بری طرح پیٹ رہی ہے ۔ عورتوں کو تک بخشا نہیں جارہا ہے ۔ پولیس کے ظلم سے تقریباً کئی مسلم طلباء شہید ہوچکے ہیں جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معصوم طلباء شامل ہیں۔
دہلی میں 8 فروری کو اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ بی جے پی کے لوگ شاہین باغ میں چل رہے خواتین کے CAA ، NRC ، NPR کے خلاف زبردست احتجاج اور مظاہروں سے سخت پریشان ہے اور امکانی شکست کا خوف انہیں کھائے جارہا ہے ۔
چنانچہ بی جے پی نے اپنے ا سٹار پرچارکوں کو میدان میں چھوڑ دیا ہے جن میں ایک انوراگ ٹھاکر (مملکتی وزیر مالیات اور دوسرا جو مغربی دہلی سے ایم پی ہے ، پرویشی صاحب سنگھ ورما ) ان دونوں نے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ تقاریر کی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر 8 فروری کو بی جے پی اسمبلی انتخابات جیت جاتی ہے تو وہ شاہین باغ میں چل رہے دھرنے و احتجاج کو ایک گھنٹہ کے اندر ختم کردیں گے اور جو خواتین اس احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں ، ان کی عصمت ریزی کی جائے گی اور دہلی کی تمام مساجد کو زمین دوز کردیا جائے گا ۔ اس قسم کے خطرناک عزائم کے اظہار کے بعد دہلی کانگریس نے الیکشن کمیشن میں ان دونوں بی جے پی قائدین کے خلاف درخواست داخل کی تھی ۔ الیکشن کمیشن نے ایکشن لیتے ہوئے انہیں بی جے پی کی انتخابی مہم سے علحدہ کردینے کا حکم دیا ہے لیکن یہ ایکشن کافی نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے خلاف IPC کے تحت کیس رجسٹر کر کے انہیں عدالتوں کے حوالے کردینا چاہئے اور ان کو قرار واقعی سزائیں دلانا چاہئے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مرکز میں بی جے پی سرکار اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کے غنڈوں کو عدالتوں سے عمر قید کی سزا سنائے گئے مجرمین کو ضمانت پر چھوڑ دیا جارہا ہے۔ 2002 ء گجرات کے مسلم مخالف فسادات میں ملوث کوڈنانی (سابقہ وزیر) اور چار عمر قید کے مجرمین کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ۔ پرگیہ سنگھ جو اس وقت ایم پی ہے ، کو بھی ضمانت دیتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی اور وہ اب ایم پی بن چکی ہے ۔ گاؤ رکھشکوں کی طرف سے تقریباً 64 مسلمانوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ پیٹ پیٹ کر شہید کردیا گیا ۔ بعض مسلمانوں پر بچہ چوری کا الزام لگاکر انہیں بھی ما ر مار کر شہید کردیا گیا لیکن ان واقعات میں ملوث مجرمین کو جیل سے چھڑا کر بی جے پی کے ذمہ دار قائدین نے ان کی گلپوشی کی اور انہیں مبارکبادیاں دی گئیں۔ ہندوستان کی پولیس اور عدالتیں خاموش ہیں جس سے بی جے پی کے قائدین اور کارکنوں کو نیا حوصلہ مل رہا ہے اور یہ لوگ خاص طور پر مسلمانوں اور دلتوں کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں اور بے خوف و خطر جو چاہے بیانات دے رہے ہیں۔
خود وزیراعظم ہند مسلمانوں اور پاکستان کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ہندوؤں کے ذہن کو خراب کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کے معاشی مسائل بیروزگاری اور دیگر کئی ایک مسائل کو حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ان حالات میں بیرونی طاقتیں امریکہ ، یور وپی یونین کے ممالک و دیگر ممالک بھی ہندوستان پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں ۔ CAA ، NRC اور NPR پر بے باک تبصرے کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کی مرکزی حکومت پر سخت تنقیدیں کی جارہی ہیں ۔ امریکہ اور یوروپ کے بڑے بڑے اخبارات میں حکومت ہند کی ان پالیسیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر ہندو ستان سخت تنقیدوں کا شکار ہے ۔ قومی سطح پر ملک کی دیگر ریاستوں نے CAA قانون کو سیاہ قانون قرار دیتے ہوئے ریاستی ا سمبلیوں میں اس قانون کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں اس فہرست میں حکومت تلنگانہ بھی شامل ہونے والی ہے۔ کے سی آر نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ ملک گیر سطح پر دیگر ریاستوں کے چیف منسٹرس اور علاقائی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ مل کر حیدرآباد میں ایک قومی سطح کا اجلاس منعقد کریں گے اور مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اس کالے قانون پر دوبارہ غور کرے اور عین عوام کے مفاد میں اس قانون کو واپس لے لے۔ سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں پر عوام میں عدالت کا وقار متاثر ہوتے نظر آرہا ہے ، تب ہی تو چیف منسٹر کے سی آر نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ ایسے قوانین کے خلاف کورٹ از خود اسٹانڈ لیتے ہوئے اسے مسترد کردے جو دستور ہند کے خلاف ہے ۔