دستور ہند اور سماجی انصاف …ایک جائزہ

   

رام پنیانی
ہندوستانی معاشرہ میں اگر ہم عدم مساوات ، چھوت چھات ، ادنی ، اعلیٰ کی بنیاد پر سماجی و مذہبی امتیاز کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ معاشرہ ہمیشہ سے ہی عدم مساوات کی گرفت میں جکڑا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں چند ایسی طاقتیں ہیں جو دستور کی شدید مخالف ہیں اور ہر حال میں ہندوستانی دستور کو ختم کرنے کی خواہاں ہے کیونکہ یہ طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ دستور جدوجہد مساوات کا ایک اہم آلہ ہے اور اسی دستور کے نتیجہ میں معاشرہ میں ذات پات کی بنیاد پر خود کو اعلیٰ و برتر سمجھتے ہوئے دوسروں کو کمتر سمجھنے والی طاقتیں پر یشان ہیں۔ ذات پات کی اس عدم مساوات کے خلاف اور سماجی مساوات ، سماجی انصاف کیلئے سب سے پہلے گوتم بدھ اٹھ کھڑے ہوئے، ان کی تعلیم کا مرکز و منبع مساوات ، سماتا تھا اور اس کی تعلیمات نے سماجی نظام پر کسی حد تک اثر ڈالا بعد میں اس کے خلاف یا جواب میں برہمنی طاقتوں نے ذات پات پر مبنی انقلاب لاتے ہوئے ذات پات کی سخت درجہ بندی کو دوبارہ نافذ کیا ۔ قرون وسطی میں راجاؤں کی حکومتوں یا حکمرانی کے دوران ذات پات کی بنیاد پر عدم مساوات اور چھوت چھات جیسی برائیاں پھیلی ہوئی تھیںجس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ( کبیر ، نام دیو ، تکارام اور نرسی مہتا) جیسے سنتوں نے معاشرہ میں پائے جانے والے ذات پات کے درد کو اجاگر کیا اور عوام کو بتایا کہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق انسانیت کے خلاف ہے جو لوگوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرتی ہے ۔ ایک جانب کبیر اور نامدیو جیسے سنت ذات پات کی تفریق مٹانے کی کوششوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف کیرالا میں نارائن گرو نے ذات پات پر مبنی نظام کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک شروع کی اور بعد میں انگریزوں کی آمد اور ماڈرن ایجوکیشن (عصری تعلیم) متعارف کروائی گئی ۔ اس دور میں جیوتی راؤ پھولے اور ساوتری بائی پھولے ذات پات اور منفی امتیاز کے خلافء ایک بڑا قدم اٹھایا اور دلتوں و خواتین میں پائی جانے والی جہالت کے خاتمہ کیلئے اسکولوں کا قیام عمل میں لایا ۔ ان اسکولوں میں دلت بچوں اور خواتین کی تعلیم کا انتظام کیا گیا تاکہ وہ حصول علم کے ذ ریعہ معاشرہ میں اپنا ایک علحدہ مقام پیدا کرسکیں اور اس تحریک کو بابا صاحب امبیڈکر نے اپنایا ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ سماجی انصاف و سماجی مساوات کی کوشش کی۔
بہرحال جب ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی تو قانون ساز اسمبلی کی تشکل عمل میں آئی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے دستور کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کی سربراہی یا قیادت کیلئے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا نام پیش کیا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ امبیڈکر نے خود کو اس بات کیلئے وقف کردیا کہ دستور میں ایسی دفعات شامل ہوں جس سے کمزور طبقات کیلئے مساوات اور سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ مثبت اقدامات کو یقینی بنایا جاسکے اور کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔ چنانچہ دستور کی ابتداء ہی ’’ہم بھارت کے عوام ‘‘ کا جملہ ایک جامع چارٹر لڑکی طرف اشارہ کرتا ہے جو کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اور ان کے مفادات کا خیال رکھنے کی بات کرتا ہے ۔ دستور ساز اسمبلی نے آزادی کی جدوجہد کے سماجی انصاف کے اقدار کو نمایاں کیا اور اسمبلی کے مباحث میں سماجی انصاف کے حق میں مثبت رویہ دکھائی دیا۔ ا یسے میں سماجی انصاف اور معاشی انصاف کا حسین امتزاج سیاسی انصاف کے اطلاق کو یقینی بناتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام شہریوں کو مساویانہ سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئے اور حکومت میں مساویانہ آواز ہونی چاہئے ۔ ہمارے پاس دیگر دفعات بھی ہیں بنیادی حقوق کے باب کی درج ذیل دفعات شہری مساوات کو یقینی بناتی ہیں ۔ (a قانون کی نظروں میں سب برابر ہے (دفعہ 14 ) (b مذہب و ملت ذات پات رنگ و نسل اور صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت ۔ (c سرکاری ملازمتوں (دفعہ 16 ) میں مواقع کے معاملہ میں مساوات۔ (d چھوت چھات کا خاتمہ (دفعہ 17) (e ٹائٹلس کی منسوخی (دفعہ 18 ) (2) یہ ایسی دفعات ہیں ذات پات کے نظام کے باعث پائی جانے والی برائیوں اور لعنتوں کے خاتمہ کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ سماجی تحریکوں کو قانون کی مختلف ذفعات کے ذریعہ تائید و حمایت کی جانی چاہئے تاکہ سماجی انصاف کے تصور و نظریہ پر موثر طور پر عمل آوری کی جاسکے۔ مثال کے طور پر دفعہ 15 (4) کے تحت ریاست کسی بھی سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقہ کے لوگوں یا درج فہرست طبقات و قبائل کی ترقی کیلئے کوئی خاص انتظام کرسکتی ہے اور اسی طرح جب مساوی روزگار کے مواقع کو قبول کرتے ہوئے دفعہ 16 (1) کے تحت سرکاری ملازمتوں میں موقع دیا گیا تو اس نے مساوات کے اصول سے استثنیٰ دیا ہے ۔ اگر ریاست کی رائے میں کسی بھی طبقہ کے لوگوں کی سرکاری ملازمتوں میں مناسب نمائندگی نہیں ہے تو ریاست تقررات میں تحفظات کیلئے کوئی انتظام کرے گی۔ دفعہ 46 کے مطابق ریاست پسماندہ طبقات کے تعلیمی اور اقتصادی مفادات کو خاص طور پر فروغ دے گی ۔ خصوصاً درج فہرست طبقات و قبائل کے تعلیمی و معاشی مفادات کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرے گی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فی الوقت ہم ایک ایسی صورتحال کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ سامنا کر رہے ہیں جہاں سماجی انصاف کے تصور کی مخالفت کرنے والے عناصر دستور ہند میں ترمیم اور اسے بدلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس معاملہ میں ہم وزیراعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ BIBEK DEBROY کی مثال پیش کرسکتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر کہا ہے کہ عاملہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل نہیں کرسکتی اور اس کی مدت ختم ہوچکی ہے ۔ اسی لئے ہمیں ایک نئے دستور کی تیاری کرنی چاہئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسٹر دیب رائے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دستور نوآبادیاتی دور کی وراثت ہے ۔ انہوں نے دستور کی مختلف دفعات پر سوالات بھی اٹھائے ، خاص طور پر سوشلزم ، سیکولرازم ، انصاف ، مساوات اور آزآدی کے اقدار سے متعلق دفعات پر انہوں نے سوالات اٹھائے ۔ ہندو رائٹ ونگ کے دوسرے نظریہ ساز بھی ہیں جو اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے ( مطلب و ہراس اور منو سمرتی کے اقدار) اور دستور ان سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ بہرحال اب دستور اور دستوری اقدار کو بچانے کی ضرورت ہے۔