لوگ بھول گئے ہونگے کہ جامعہ اسلامیہ ملیہ کی بنیاد حضرت شیخ الہند نے کی تھی اور انہوں نے اس سلسلے میں چار سال تک مالٹا کی جیل میں گذارے اور اس ملک کی آزادی کےلیے اپنی مخلصانہ خدمات انجام دیں، ان خیالات کا اظہار مولانا سید ارشد مدنی نے میڈیا سے مخاطب ہو کر کیا۔
مولانا نے مزید کہا کہ ” اور مولانا کا انتقال 1920 میں ہوا پھر انکی جماعت اگے بڑھتی گئی، اور اس ملک کا دستور سیکولر دستور بنا اور ملک آزاد ہو گیا۔
مولانا نے کہا میں تاریخ اسلئے دہرا رہا ہوں کہ ملک کی ازادی کے بعد یہ پہلی جماعت جو ملک کی دستور کی حفاظت کےلیے کھڑی ہے، اور وہ جامعہ کے طلباء ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ حضرت شیخ الہند کا ان طلباء سے روحانی تعلق ہو جو اس تاریخی احتجاج کا سبب بنا ہے۔
مولانا نے کہا کہ میں مسلسل اس چیز کو دیکھ رہا تھا کہ یہ جد وجہد صرف جامعہ اور علیگڑھ تک محدود رہتی ہے یا ہندو نوجوان بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، جب تیسرے دن اس کے اندر سے ہندو نوجوان بھی کھڑے ہوۓ جے این یو کے نوجوان کھڑے ہوے تب میں نے بیان دیا کہ تحریک کا اصل رخ یہی ہے مسئلہ ہندو مسلمان کا نہیں ہے۔
یہ نوجوان سیکولر دستور کی حفاظت میں کھڑے ہیں، آج سے 90 سال قبل جو اس ملک کی ازادی کےلیے ہمارے ہندو اور مسلمانوں نے مل کر ازادی کی جدوجہد کی اور اس ملک کا دستور سیکولر بنایا، آج وہی دستور آواز دے رہا ہے کہ اس ملک کے سیکولر دستور کی کون حفاظت کرے گا؟۔
مولانا نے کہا میرا ماننا ہے کہ جس طرح اس ملک کی ازادی کےلیے لوگوں نے مذہب سے اوپر اٹھ کر اس ملک کی آزادی کےلیے جدوجہد کی تو ضرورت اسی بات کی ہے لوگ سیکولر دستور کی حفاظت کے لیے بھی مذہب سے اوپر اٹھ کر سامنے آئیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اس وقت سارا ہندوستان کھڑا ہے۔
مولانا نے کہا کہ مسئلہ ہندو اور مسلمان کا نہیں ہے جو لوگ اسے ہندو اور مسلمان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ دستور کی حق میں خیانت کر رہے ہیں، جب تک ہندو اور مسلمان مل کر قربانی نہیں دیں گے اس وقت تک ملک کے آئین کا حق ادا نہیں کر پائیں گے۔
مولانا نے کہا کہ ہم احتجاج کےلیے دو شرطیں لگاتے ہیں ایک یہ کہ اگر اپ کو احتجاج کرنا ہے تو ہندو اور سکھ بھائیوں کو ساتھ لے کر احتجاج کریں، اور دوسری بات یہ ہے ملک کے املاک کو ہاتھ نہ لگائیں۔ اپ کا احتجاج پرامن ہونا چاہیے چاہے اپ پر پولیس ڈنڈے برساۓ چاہے اپ کو گھسیٹ کر لے جاۓ اور جیل میں ڈالے یہ سب کچھ برداشت کیجئے مگر پرامن کیجئے، اگر ان دو شرطوں کے ساتھ احتجاج نہیں ہو رہا ہے تو ہم اس سے بری ہیں۔۔