دستِ کرم

,

   

نفیسہ خان
تین چار مہینے پہلے یوم جمہوریہ پر جب دہلی میں شاہین باغ کی تین چار دادیوں نے ہزاروں لاکھوں مرد حواتین و بچوں کی موجودگی میں بھارت کا قومی پرچم یعنی ترنگا جھنڈا لہرایا اور تالیوں سے نہ صرف پورا شاہین باغ گونج اٹھا بلکہ جہاں جہاں سوشیل میڈیا کا جال پھیلا ہوا ہے ، وہاں تک لوگوں نے دل کھول کر تعریف کی، خوب سراہا۔ اگر حوصلے بلند ہوں تو عمر کی کسی بھی منزل پر وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، ان دادیوں کے لئے اتنے تعریفی جملے پڑھ پڑھ کر ہماری رگ حمیت پھڑک اٹھی، ہم نے عرصہ دراز بعد قدِ آدم آئینہ میں اپنے سراپا کا تفصیلی جائزہ لیا اور مطمئن ہوکر اس نیتجے پر پہنچے کہ ان دادیوں کے تقریباً ہم عمر ہونے کے باوجود جسمانی ، دماغی و ذہنی طور پر ان سے اب بھی اپنے آپ کو اس قابل پایا کہ ملت کی خاطر میدان عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں کیونکہ ابھی نہ کمر خمیدہ ہوئی نہ ہاتھوں میں رعشہ نہ پاؤں میں لڑکھڑاہٹ کہ واکر کا سہارا لینا پڑے ، دانت بھی بفضل تعالیٰ پورے سلامت ہیں ابھی ہل بھی نہیں رہے ہیں کہ وقت ضرورت ہر قسم کی روکھی سوکھی روٹیاں بھی چباسکیں ۔ بعد از مرمت عینک پر اکتفا کئے ہوئے ہیں اور بغیر عینک کے بھی بینائی ساتھ دیتی ہے۔ وقتاً فوقتاً ڈاکٹروں کے صلاح مشوروں سے ہماری حیثیت اس پرانی عمارت جیسی ہے جس کی داغ دوزی اور رنگ و روغن سے وہ نیا روپ دھار لیتی ہے ۔ ہم بھی اپنا بھرم رکھتے ہوئے ہیں ، جب پوری طرح اپنے ظاہری حلیہ سے مطمئن ہوگئے تو پھر کیا تھا ہم دندناتے ہوئے جاکر اپنے شریک حیات اقبال صاحب کے سامنے تن کر کھڑے ہوگئے اور اپنی بات ان کے سامنے رکھ دی کہ ایک لمبے عرصہ تک برسر روزگار رہتے ہوئے پچھلے تین سال سے جو یہ گھر بیٹھے بیلن کفگیر ہانڈی کی ہم سیاست کر رہے ہیں، اسے اب چھوڑ کر ترنگا جھنڈا یا پھر کوئی پلے کارڈ تھام کر کسی چوراہے پر ڈٹ جائیں گے یا ملین مارچ اور ترنگا مارچ میں شامل ہوجائیں گے ۔ آخر ہم بھی ہندوستانی ہیں اور وہ بھی مظلوم ملت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے گھر داری کرتے ہوئے چار دیواری میں رہنا ممکن نہیں ہے ۔ پہلے تو شوہر نامدار نے اخبار سے سر اٹھاکر ہمیں غور سے دیکھا اور پھر اخبار پڑھنے لگے ، ہم نے آواز کچھ اور بلند کردی کہ ہم بھی دیکھیں گے ، آپ یا کوئی اور مائی کا لال ہم کو کیسے روک سکتا ہے ۔ ہم نے ٹھان لی ہے کہ ہم لے کے رہیں گے آزادی۔ اس گھر گرہستی سے آزادی۔ چولہا چوکی سے آزادی۔

برتن مانجھنے سے آزادی، کپڑے دھونے سے آزادی ، ابھی اور بھی کچھ کہنے سے پہلے صاحب نے اخبار بازو میز پر رکھ دیا اور پر یشانی کے عالم میں ہمارے گلے کو ہاتھ لگاکر معلوم کرنا چاہا کہ کہیں بخار کی شدت سے بوران و بذیان تو نہیں بکے جارہی ہوں پھر کسی ڈاکٹر کی طرح نبض پر ہاتھ رکھا دھڑکن حسب معمول ، اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ دل اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے ، وہاں کسی تساہل کا قطعی اندیشہ نہ تھا بڑا سا سوالیہ نشان چہرے پر لئے ہمیں دیکھا ہم نے تنبیہہ کے انداز میں اپنی کلمہ کی انگلی نچاتے ہوئے جتا دیا کہ آپ ہماری صحت کا بہانا بناکر ہمیں جانے سے قطعی نہیں روک سکتے، ہم کوئی ان پڑھ جاہل افراد کے زمرے میں تھوڑے ہی آتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات کا ہمیں اندازہ نہ ہو، دستور سے ڈنکے کی چوٹ پر کھلواڑ ہو اور ہم جب ر ہیں اپنی ضعیفی اپنے کمر و گھٹنوں کے درد وغیرہ کا حیلہ لے کر خود کو ناکارہ اپاہج و مفلوج بناکر آگے نہ بڑھیں۔ کچھ وقت ایسے تعمیری کاموں میں بھی تو لگاسکتے ہیں ، ملین مارچ و ترنگا مارچ میں ملین مردوں کے ساتھ اگر عور تیں بھی ہوتیں تو ان جلوسوں میں چار چاند لگ جاتے، ہر مرد کے ساتھ ماں بیوی بہنیں بیٹیاں ، ساس ، سالیاں سبھی مستورات ہوتیں تو ملین کی جگہ پانچ ملین ملت محمدیہ سڑ کوں پر ہوتی، ان کی سریلی آوازوں میں’’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘ کے نعروں سے فضاء و نغمہ ریز ہوجاتی لیکن کسی نے بھی روشن خیالی کا ثبوت نہیں دیا اور سیاہ برقعوں میں ملبوس خو اتین ہمیشہ کی طرح عورت کا مقام گھر کی چار دیواری ہے، پر صابر ہوکر گھر بیٹھ گئیں۔ چند ایک اس اصول کو توڑتے ہو ئے باہر آنے کی ہمت جٹا پائیں ، ایک طرف حیدر آباد میں شاہین باغ بنانے کی سیاسی رہنماؤں نے ہمت نہیں کی اور دوسری طرف شاہین باغ کی عورتوں کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے سلیوٹ کرتے رہے۔ صاحب ہما ری لن ترانیوں سے اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر ہمیں ایک بچہ سمجھ کر سمجھانے لگے کہ ساگر میں تو ا تنے مسکین اتنے کمزور و بزدل امن پسند لوگ رہتے ہیں کہ دھرنا ، ہڑتال جلسے جلوسوں کا تصور بھی ان کے پاس نہیں ، دن بھر محنت کے بعد سر شام اپنے گھروں میں بیوی بچوں کے ساتھ بند ہوجاتے ہیں ۔ سات بجے کے بعد سوائے بس اسٹانڈ کے ساری بستی سنسان ہوجاتی ہے، اب تم کیا کروگی ؟ شاہین باغ جیسی چہل پہل کیسے لاؤگی اور آس پاس کے دیڑھ سو کیلو میٹر تک نہ کہیں کوئی مخالف حکومت نعرے لگانے کی ہمت کرنے والا نظر آئے گا ، ہم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہاں ساگر کی بات کون کر رہا ہے ، ہم تو دھرنے پر بیٹھنے کا قصد کرچکے ہیں ، اب تک تو صاحب سنجیدگی سے ہماری بات نہیں لے رہے تھے کیونکہ اکثر جب نوکر یا ڈرائیور چھٹی لگا بیٹھتے ہیں یا دیر سے آتے ہیں یا پھر کوئی بات ہماری مرضی کے خلاف ہوتی ہے تو ایسے ہی بڑبڑانے کی ہمیں عادت ہے اس لئے انہوں نے سوچا کہ ہمیشہ کی طرح دل کی بھڑاس نکل جانے پر ہم چپ ہوجائیں گے لیکن ہم نے دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا کہ ہمیں اپنی طبعی عمر کے لحاظ سے شاہین باغ کی دادیوں کا ضرور ساتھ دینا چاہئے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سارا کریڈٹ و اعزاز وہ لے جائیں اور ہم گھر میں تخت پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے نوکروں اور بہو بیٹیوں پر حکم چلاتے رہیں۔ جب سچ مچ میں ہم نے اپنا بریف کیس الماری پر سے اتار کر الٹ پلٹ کرنا شروع کیا تو صاحب کی پریشانی بڑھنے لگی۔

اب اپنے پرانے ہتھکنڈے آزمانے لگے کہ ذرا دیکھ تو لینے دو کہ گاڑی میں پٹرول کتنا ہے۔ کبھی ساگر کے پٹرول پمپ میں پٹرول بھی نہیں رہتا۔ ہمارا صاف سپاٹ جواب تھا کہ کل ہی تو میں نے پندرہ لیٹر پٹرول ڈلوایا تھا ۔ اچھا ایسا کرتے ہیں کہ بینک سے کچھ رقم نکلوا لیتے ہیں ، ابھی پہلی تاریخ آنے میں کافی دن ہیں، بینک میں بھی اکثر رقم نہیں ہوتی بیچارے آفسیرس سیکوریٹی گارڈس کے ساتھ نلگنڈہ مریال گوڑہ کے بینکوں کے چکر لگایا کرتے ہیں ۔ ہم نے فوراً سیکوریٹی گارڈ کو فون لگایا تاکہ حقیقتِ حال کا اندازہ ہو، اس نے جلد آنے کی تاکید کی تاکہ رقم ختم ہونے سے پہلے مل جائے ۔ صاحب نے اپنی خفت چھپاتے ہوئے دبے الفاظ میں پوچھا ۔ ارادہ صرف حیدرآباد کے دھرنا چوک تک جانے کا ہے یا پھر شاہین باغ جانے کا ہے ؟ ہم نے گہری نظروں سے انہیں دیکھا تو کہنے لگے ارے بھئی اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ کب جانا چاہ رہی ہو ؟ کونسی تاریخ و دن کی فلائیٹ کا ٹکٹ بک کروانا ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ کام تو ہمیشہ گھر کا بچہ عتو ہی کرتا ہے نا ۔ فون کردیں وہ سب انتظام کردے گا ۔ اب تو واقعی صاحب کے ہاتھ پیر پھول گئے پھر مجھے سمھانے بیٹھ گئے ۔ دیکھو تم ایسا کرو کہ اپنی بہنوں سعدیہ ، صبیحہ ، فریسہ کو بھی ساتھ لے جاؤ، آخر وہ بھی تو نانی دادی بن گئی ہیں، وہ ساتھ ہوں تو تمہارے لئے جوڑ صحبت رہے گی اور میرے دل کو بھی اطمینان رہے گا کہ تم سب ساتھ ہو ۔

ہم نے چڑکر کہا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں، آپ اور مقصود بھی ہمارے ساتھ چلیں ، دونوں انجنیئر ہیں اور اخبار و سوشیل میڈیا کی خبر ہے کہ یو پی کی یوگی سرکار نے سڑکوں پر گھومنے والی آوارہ گائے بیل و غیرہ کو گلیوں ، چوراستوں سے ہٹانے کیلئے یہ ذمہ داری انجنیئروں کو دی ہے ۔ اس کو کہتے ہیں ، روزگار فراہم کرنا کتنا درد مند دل رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کیلئے یوگی جی آپ دونوں کو بھی عارضی کام مل ہی جائے گا، ویسے بھی آپ لوگ بعد از نوکری وظیفے پر سبکدوش ہوجانے کے باوجود کونسا گھر پکڑ کر بیٹھے ہیں، اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنے آفس کھول چکے ہیں۔ صاحب نے اب ترپ کا پتہ پھینکا کہ پہلے کیوں نہ ڈاکٹروں کی رائے لے لی جائے۔ آخر ہم ان کے زیر علاج ہیں۔ صاحب کو یہ یقین کہ ان میں سے کوئی ایک معالج تو یہ ضرور کہے گا کہ اس عمر اور سردی کے موسم میں صحت کی خرابی کے باعث نہ ہمارا جانا مناسب ہے نہ آپ کے شوہر کو دوسروں کی زیر نگرانی چھوڑنا ٹھیک ہے ۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی اور اطلاع آئی کہ میری جہدکار بھانجی اور اس کی ساتھی کو دھرنا دینے کی پاداش میں پولیس اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی ہے ، ہماری نظروں کے سامنے بڑی بڑی مونچھوں کے پولیس والوں کے چہرے رقصاں ہوگئے ہماری حالت اس غبارے جیسی ہوگئی جس کی ہوا اچانک اتر گئی ہو۔ ہم دھم سے صاحب کی کرسی کا سہارا لیتے ہوئے فرش پر ان کے قدموں پر بیٹھ گئے ۔ انہوں نے ہمیں ڈھارس بندھائی کیونکہ اس سیاست سے ان پولیس والوں کی لہو لہان کردینے والی لاٹھیوں سے نفرت و خوف کا احساس ہوتا ہے۔ صاحب نے کہا تمہاری ضد پر میں خوف کھارہا تھا کہ کب حالات بگڑیں اور تم ان کی زد میں آجاؤ اور زخمی ہوجاؤ ، تم لاٹھی و مار کی بات چھوڑو اونچی آواز سے بات کرنے پر تلملا اٹھتی ہو۔ ہم نے تو برسوں پہلے اپنی شادی کی چوتھی کے رسم کے مطابق پھولوں کی چھڑی سے تک تمہیں نہیں مارا تھا، اب بربریت پر اتر آئے ۔ غنڈوں کی مار پیٹ کرتے ہوئے کیسے برداشت کرسکتا ہوں تمہیں ایسی جگہ بھیجتے ہوئے میرا دل لرز رہا تھا ۔ آج کل گھر اور خاندان کے ارکان ایک کے بعد ایک سمندر پار اپنی دنیا بسا رہے ہیں۔ اگر اللہ کا کرم ہو تو گھر میں رہ جانے والے میاں بیوی ہی ایک دوسرے کی خوشیاں غم بانٹ لیتے ہیں۔ بیماریوں میں تیمار داری کا سہارا ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کے ہمدم و غمگسار ہوتے ہیں۔ آپسی خوش کلامی ہو یا غصے کا اظہار ہو ، ایک اپنے پن کا احساس رہتا ہے ۔ پیار محبت ہمدردی و شفقت میں بدل جاتا ہے۔ ایک دو دن کیلئے کسی کام سے کوئی ایک باہر جائے تو گھر سنسان ویران سا لگتا ہے ۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں اور یہ کمی کوئی اور رشتہ پورا نہیں کرسکتا ۔ میں نے صاحب کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا اور پھپک پھپک کر رونے لگی ، ان کی انگلیاں میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں اور میں نے دل سے دعا مانگی کہ یا اللہ یہ دست رحمت یہ دستِ کرم تا حیات میرے سر پر قائم رہے ۔ آمین۔