محمد مصطفی علی سروری
عائشہ بانو مکرانی کی عمر 23 بر س ہے۔ گجرات کے شہر احمد آباد کے علاقے المیناء پارک کی رہنے والی یہ خاتون 25؍ فروری کی صبح اپنے دفتر جانے کے لیے صبح 9 بجے گھر سے نکلتی ہے۔
عائشہ نے ایم اے اکنامکس کی تعلیم حاصل کی تھی اور آئی سی آئی سی آئی بینک میں کام کرتی تھی۔ حالانکہ عائشہ کی شادی ہوچکی تھی لیکن وہ اپنے والدین کے پاس ہی قیام کر رہی تھی۔اخباری دی انڈین ایکسپریس کی 28؍ فروری کی اشاعت میں احمد آباد سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق 6؍ جولائی 2018ء مطابق 22؍ شوال المکرم 1439ھ کو عائشہ بانو مکرانی ولد لیاقت علی مکرانی کا نکاح جالور، راجستھان کے رہنے والے عارف خان غفور جی کے ساتھ ہوا تھا۔ عارف خان ایک خانگی ملازم بتلایا گیا ہے۔
ڈسمبر 2018ء کو عارف نے اپنی پانچ ماہ کی نویلی دلہن کو اس کے پاس ماں باپ کے گھر واپس بھیج دیا اور مزید جہیز کا مطالبہ کرنے لگا۔ دلہا اور دلہن کے گھر والوں نے مل بیٹھ کر آپس میں تصفیہ کروایا اور عائشہ واپس اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ ابھی شادی کا ایک برس بھی پورا نہیں ہوا عائشہ کو اس کے شوہر عارف نے دوبارہ اپنے مائیکے کو بھیج دیا۔ اس مرتبہ عائشہ جنوری 2020ء تک اپنے والدین کے پاس احمد آباد میں رہی۔ 26؍ جنوری 2020ء کو عائشہ کو ایک مرتبہ پھر کے والدین نے عارف خان کو ڈھائی لاکھ روپئے ادا کیے جس کے بعد عارف نے اپنی بیوی عائشہ کو سسرال لے کر گیا۔ لیکن اب عائشہ کو سسرال میں شوہر اور اس کے والدین کی جانب سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا اور عین کرونا لاک ڈائون سے پہلے مارچ 2020ء میں عائشہ کو واپس اپنے مائیکے بھیج دیا گیا اور تب سے عائشہ اپنے والدین کے پاس احمد آباد میں ہی رہ رہی تھی اور اس نے ICICI بینک میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ (بحوالہ۔ اخبار دی انڈین ایکسپریس ۔ 28؍ فروری )
عائشہ کے والد نے اس کے سسرال والوں کے خلاف واٹوا پولیس اسٹیشن میں گھریلو تشدد کے الزامات کے تحت شکایت درج کروائی تھی اور یہ کیس احمد آباد کے گھی کانٹا میٹروپولیٹن کورٹ میں ابھی زیر دوران ہے۔
قارئین اب ہم واپس 25؍ فروری2021ء کی طرف لوٹتے ہیں اس دن صبح 9 بجے عائشہ بانو مکرانی دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے اور پھر شام ساڑھے چار بجے لیاقت علی مکرانی کو ان کی بیٹی عائشہ مکرانی کا فون آتا ہے۔ اس فون کال میں عائشہ اپنے والد سے کہتی ہے کہ پپا میں تھک گئی ہوں میں جینا نہیں چاہتی ہوں۔ والد اپنی بیٹی کو کسی طرح کے بھی غلط اقدام سے باز رکھنے کی اپیل کرتے ہیں۔ اپنے نام کی لاج رکھنے کو کہتے ہیں ۔ مقدس کتاب کی قسم دلاتے ہیں اور آخر میں خود کو مار کر سب گھر والوں کو بھی ختم کردینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ مگر ان سب کا ایک ہی اثر ہوتا ہے کہ عائشہ کہتی ہے کہ ٹھیک ہے پپا میں واپس آرہی ہوں۔ مگر عائشہ کبھی نہ واپس آنے والے سفر پر جاچکی تھی۔ عائشہ گھر سے صبح زندہ تو نکلی تھی مگر شام دیر گئے عائشہ کی میت گھر آتی ہے۔ احمد آباد کی سابرمتی ندی میں عائشہ نے کود کر خود کشی کرلی اور اپنی جان ختم کرنے سے پہلے اس نے 2 منٹ کا ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ عائشہ نے اپنے ویڈیو میں کیا کہا ذرا وہ بھی پڑھ لیجئے۔
’’ہیلو السلام علیکم !
میرا نام عائشہ عارف خان ہے۔ اور میں جو کچھ بھی کرنے جارہی ہوں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں۔ اس میں کسی کا دبائو نہیں ہے۔ یہ سمجھ لیجئے کہ خدا کی زندگی اتنی ہی تھی۔ مجھے بہت سکون والی زندگی ملی۔
ڈیئر ڈیڈ کب تک لڑیں گے اپنوں سے۔ کیس واپس لے لیں۔ عائشہ لڑائیوں کے لیے نہیں بنی ہے۔ میں خوش ہوں کہ آج کے دن مجھے جو سوالوں کے جواب چاہئے تھے وہ مل گئے۔ مجھے جس کو بتانا تھا وہ بتاچکی ہوں۔ مجھے دعائوں میں یاد رکھنا۔ کیا پتہ جنت ملے نہ ملے…
میں خوش ہوں کہ اب اللہ سے ملوں گی اور انہیں کہوں گی کہ میرے سے غلطی کہاں ہوئی۔ ماں باپ بھی بہت اچھے ملے۔ دوست بھی اچھے ملے۔ بس مجھ میں ایک کمی رہ گئی تھی یا تقدیر میں …میں خوش ہوں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔ ایک چیز ضرور سیکھی محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو۔ ایک طرفہ محبت میں کچھ حاصل نہیں اور کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔‘‘
قارئین کرام عائشہ نے زندگی سے تنگ آکر خود کشی کرلی اور اپنے پیچھے رونے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم چھوڑا۔ صرف عائشہ کے گھر والوں نے ہی آنسو نہیں بہائے جس نے بھی عائشہ کا اپنی خود کشی سے پہلے والا ویڈیو دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اور آنسو بہانے والا ہر فرد یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے آنسو عائشہ کی ہمدردی میں ہیں یا اس کے ظالم شوہر کے لیے غصہ کا اظہار؟
قارئین کرام 23 سال کی عائشہ کی موت نے ہر ذی شعور فرد کو سونچنے پر مجبور کردیا۔
عائشہ کے والد لیاقت علی خاں مکرانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتلایا کہ عائشہ اپنی زندگی کے حالات کو دیکھ کر پریشان تھی مگر اس نے پڑھ لکھ کر اپنے پیروں میں کھڑے ہونے کا ارادہ کرلیا تھا۔ وہ پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر بننا چاہتی تھی مگر شوہر نے اس سے فون پر جو بات کی بس اسی کے بعد عائشہ نے خود کشی کی۔ پولیس کے حوالے سے اخبار دی انڈین ایکسپریس نے یکم ؍ مارچ کی رپورٹ میں لکھا کہ عائشہ نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنے شوہر عارف خان سے 72 منٹ تک بات کی جس میں اس کے شوہر نے مبینہ طور پر یہ تک کہدیا کہ اس کو مرنا ہے تو وہ مرجائے مگر مرنے سے پہلے ایک ویڈیو ضرور بنائے جس میں اپنی موت کی ذمہ داری خود قبول کرلے۔
قارئین کرام خود کشی حرام ہے۔ مذہب اسلام میں تو اس کی ہرگز گنجائش نہیں ہے اور جیسا کہ عائشہ کے والد الزام لگاتے ہیں کہ اس کے شوہر اور گھر والوں نے اس کی زندگی کے لیے مشکلات پیدا کردیئے تھے تو کیا عائشہ اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنی زندگی دوبارہ شروع نہیں کرسکتی تھی؟ اور سب سے اہم سوال کیا عائشہ کی خو د کشی کو ٹالا جاسکتا ہے کیا ایک ہنستی کھیلتی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے۔
عائشہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کی ہراسانی جہیز کے مطالبہ کو لے کر پریشان تھی اور والد کے گھر آکر رہ رہی تھی۔ عائشہ کے والد نے پولیس میں شکایت بھی درج کروائی تھی اور انہیں امید تھی کہ پولیس کے دبائومیں آکر عارف خان سدھر جائے گا اور ان کی لڑکی واپس اپنے شوہر کے پاس جاسکے گی۔
لیکن عارف خان عائشہ کے اپنے مائیکہ جانے اور پولیس میں شکایت کے باوجود سدھر نہیں سکا تھا۔
قارئین یہاں پر ایک بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو جب سسرال میں ہراسانی ہو تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے مدد لے کر راحت حاصل کی جاسکتی ہے۔ عارف خان نے واضح کردیا تھا کہ عائشہ پولیس میں شکایت کرلے یا اور کچھ بھی کرے مگر وہ واپس آنے والا نہیں؟ کیوں کہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق عارف خان کا اور بھی دوسری لڑکیوں کے ساتھ معاشقہ تھا اور وہ ان کے ساتھ خوش رہنے کے راستے ڈھونڈ چکا تھا۔ مسئلہ تو اصل عائشہ کا تھا۔ عائشہ اپنے ماں باپ کو مزید تکالیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ حالانکہ اس کے ماں باپ اس کے لیے عارف سے بات کرنے پولیس کیس ختم کرنے اور اس کو شوہر کے ہاں واپس بھیجنے کے لیے سب کچھ کرنے تیار تھے لیکن 72 منٹ کی اپنے شوہر سے بات چیت کے بعد عائشہ کو سمجھ میں آگیا تھا کہ عارف تو دوسری لڑکیوں کے ساتھ زندگی گزارنے تیار ہے۔ مسئلہ تو اس کا ہے کہ اب وہ اپنے ماں باپ کے گھر کب تک بیٹھے گی۔ حالانکہ وہ تو ICICI بینک میں ملازم تھی۔ معاشی طور پر خود کفیل تھی۔ مگر لوگ کیا کہیں گے نے شائد عائشہ کے سامنے زندہ رہنے کے راستے بظاہر مسدود کردیئے تھے۔ کیونکہ عائشہ کی اپنے ماں باپ کے ساتھ آخری ٹیلی فونک گفتگو پر غور کریں تو اس کی ماں نے عائشہ کو خود کشی کرنے سے منع کرتے ہوے کہا تھا کہ اگر وہ ’’ایسا کام کرے گی تو لوگ بولیں گے وہی غلط ہے۔‘‘
کیا ’’یہی لوگ بولیں گے‘‘ جنہوںنے عائشہ کی جان لے لی۔ عائشہ شادی کے بعد بھی ماں باپ کے گھر رہے گی تو لوگ کیا بولیں گے کیا جھگڑا ہوا کی بچی ماں باپ کے گھر پر ہے۔ عائشہ شوہر سے علیحدگی بھی اختیارکرلیتی تو لوگ کہتے کیا خراب کام کری کی شوہر چھوڑ دیا؟
عائشہ نے پولیس کیس بھی کیا تو لوگوں نے کہا ہوگا کہ کیسے ماں باپ ہیں بچی کو زندگی گزارنا نہیں سکھائے۔
عائشہ نے حالات کا سامنا کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرلی۔ آپ ذرا اپنے اطراف و اکناف دیکھیں کتنی ایسی لڑکیاں ہے جنہیں لوگوں کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ ان کے ماں باپ کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ یقینا عائشہ کو یا اس کے ماں باپ کی تربیت کو یا عارف خان کو برا بولنا حل نہیں ہے۔ حل تو یہ ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے کہ یہ لڑکے والے جو جہیز مانگتے ہیں وہ خراب نہیں ہوتے۔ جی ہاں بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ کوئی گھر ایسا نہیں جو صرف لڑکے والوں کا ہی ہے۔ گھر کی لڑکی کی شادی ہو تو لڑکے کے گھر والے بھی لڑکی والے بن جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے گا ہم دوسروں پر تنقید کر کے اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری کیا ہے، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھ دینے پر ہی اکتفاء نہ کریں۔ ان کی تعلیم اور تربیت بھی اسلامی روشنی میں کریں۔ دو ہی سبق سہی مگر ضرور سکھائیں۔ صبر اور شکر۔
پریشانیوں پر صبر کریں اور نعمتوں پر شکر کریں۔ ہر دو وقتوں میں اللہ رب العزت سے رجوع ہوں۔ شائد ہم لوگوں نے نہ خود صبر سیکھا ہے اور نہ ہی شکر ادا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچے پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں تو اللہ رب العزت سے ہی شکوے، شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں۔ مسئلے مسائل کا سامنا ہم ہی کیوں کریں ۔ دوسری جانب راہ اعتدال سے دوری اتنی کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری، فضول خرچی اور بے جا رسوم و رواج عام ہوگئے ہیں۔
قارئین کرام عارف خان کو پولیس میں شکایت کر کے بھی سدھارا نہیں جاسکا۔ عارف خان راجستھان کا رہنے والا ہے۔ راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے او رمسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کروانے کی ذمہ داری کانگریس کی بھی نہیں ہے۔ عائشہ بانو مکرانی گجرات کے شہر احمد آباد کی رہنے والی ہے اور یہ بات نوٹ کیجئے گا کہ گجرات کی بی جے پی حکومت نے عائشہ کی زندگی اجیرن نہیں بنائی بلکہ دوسرے مسلمان نے یہ کام کیا۔سمجھ لیجئے گا یہ سیاسی جماعتیں بھی کچھ نہیں کرسکتی۔سونچئے گا۔ غور کیجئے گا۔ دین اسلام پر چلنا اور قرآنی تعلیمات و اسوۂ رسول پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کسی سیاسی جماعت اور حکومت کی نہیں کہ وہ ہمارے بچوں کی اسلامی اقدار کی روشنی میں تربیت کریں۔ کیا ہم اپنا محاسبہ کرنے تیار ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے دو اہم اسلامی اسباق صبر اور شکر کو سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]