یشونت سنہا ، اتل کے ٹھاکر
جب سے نریندر مودی حکومت نے مئی 2014 میں اقتدار سنبھالا ہندوستان کی معاشی پالیسیاں زیادہ تر بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں و خواہشات کے ذریعہ چلائی گئی ہیں۔ یہ ایسی پالیسیاں ہیں جس کی پوری طرح تیاریاں نہیں کی گئیں، ماہرین اقتصادیات سے کسی بھی قسم کی ماقبل مشاورتوں کا انعقاد عمل میں نہیں آیا اور نہ ہی ان پالیسیوں کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر کی گئی۔ ہاں یہ ضرور کیا گیا کہ سابقہ پالیسیوں کی ایک طرح سے ’’ری سائیکلنگ‘‘ کی گئی اور یہ ری سائیکلنگ بڑی مہارت کے ساتھ کی گئی۔ کئی عوامی بہبودی پروگرامس تباہ و برباد کردیئے گئے، انہیں مسخ کردیا گیا، نئے نام دیئے گئے اور دوبارہ آغاز کیا گیا۔
لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب اکنامک سروے 2019-20 میں کہا گیا کہ انڈیا یقینی پالیسی سے الگ ہوگیا ہے اور یہ ایسی پالیسی ہے جو ساری دنیا کا تعاقب کررہی ہے۔ کورونا وائرس نے پہلے ہی اپنا سر اٹھایا ہوا ہے اور ہندوستانی معیشت اس بحران سے دوچار ہے۔ ہندوستانی معیشت کو ایک ایسی معیشت کہا جاسکتا ہے جسے چہارسو یا چاروں طرف سے کئی ایک مسائل گھیرے ہوئے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرچکے ہیں۔ اقتصادی سروے کا مسودہ چیف اکنامک اڈوائزر وزارت فینانس نے تیار کیا اور دنیا نے بھی اسے بڑے غور سے دیکھا۔ اس مسودہ کے وزارت فینانس کے اعلیٰ معاشی مشاورت کار کے بیان کے آوٹ لک کے طور پر دیکھا گیا لیکن ہمیں یقین ہے کہ وزیر فینانس نے اس مسودہ کو بڑے ہی احتیاط سے پڑھا ہوگا، اس میں تبدیلیاں کی ہوں گی اور جہاں کہیں ضرورت پڑے اسے سدھارا ہوگا اور پھر تب کہیں جاکر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہوگا۔ اگر اس مسودہ میں مسلسل غلطیاں ہوں یا حساب کتاب یا منصوبوں میں غلطیوں کا بار بار ارتکاب کیا گیا ہو تو پھر اس کے لئے جتنا مسودہ تیار کرنے والے ذمہ دار ہیں اتنے ہی برابر کے ذمہ دار ہمارے وزیر فینانس ہیں۔ یہاں تک کہ فروری کے اوائل پر بھی معاشی لحاظ سے ہندوستان غیر یقینی حالات سے گذررہا تھا۔ بعد کے جو حالات ہوئے ہیں اس نے ان کی تردید کردی ہے۔
مارچ 2020 کے تیسرے ہفتہ تک ہمارے ملک میں کورونا وائرس کے صرف 500 کیسیس تھے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک مکمل لاک ڈاون کا اعلان کردیا، اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سی سلیقہ سے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکر قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں نریندر مودی نے اپنے ہم وطنوں کو بڑے ہی پراعتماد انداز میں تیقن دیا کہ ہندوستان اندرون 21 یوم اس عالمی وباء سے چھٹکارا پالیگا لیکن معاشی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان 21 سال پیچھے ہوگیا ہے۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ہمارے ملک میں کورونا کے 5 لاکھ سے زائد کیسیس منظر عام پر آئے اور آپ کو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ عالمی سطح پر اس عالمی وباء سے شدید ترین متاثرہ ممالک میں ہندوستان کا نمبر چوتھا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک لاک ڈاون نافذ کرتے ہوئے بہت بڑی غلطی کی اور اب تو عام رائے اور حکمت یہی ہے کہ لاک ڈاون کے نتیجہ میں ہی ہماری معیشت تقریباً تباہ ہو کر رہ گئی، جبکہ اس لاک ڈاون نے عوامی زندگیوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرکے رکھ دیا۔
ویسے بھی ہمارے ملک کی معاشی حالت بہت ہی خراب حالت میں ہے اور یہ صرف کورونا یا لاک ڈاون کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکہ پچھلے مالی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت کی ترجیحات بالکل غلط رہیں۔ اس نے جلد سے جلد معیشت کو بلندیوں پر پہنچانے کے خواب دیکھے اور اسی کے تحت پالیسیاں بنائیں اور یہی پالیسیاں معیشت کی بربادی کا باعث بنیں۔ مالی سال 2019-20 کے پچھلے سہ ماہی کے لئے شرح نمو کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ وہ بھی انودھے منہ گر گئے۔ پہلے سہ ماہی 5.6 فیصد سے گر کر 5.2 فیصد ہوگیا۔ دوسرا سہ ماہی 5.1 فیصد سے گر کر 4.4 فیصد ہوگیا اور تیسرا سہ ماہی 4.7 فیصد سے گر کر 4.1 فیصد تک پہنچ گیا اور یہ گراوٹ بہت ہی مختصر سے عرصہ کے دوران درج کی گئی۔
معیشت سے غیر پیشہ وارانہ انداز میں نمٹا گیا
معیشت کے احیاء کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے معیشت کو انتہائی غیر پیشہ وارانہ انداز سے نمٹا گیا۔ اعداد و شمار توڑ مروڑ کر پیش کئے گئے۔ معیشت کی منفی تصویر چھپانے کے لئے دروغ گوئی سے کام لیا گیا اور عوام کو اس حقیقت سے دور رکھا گیا کہ ہندوستانی معیشت میں کیا ہو رہا ہے۔ 29 مئی کو حکومت نے معیشت کا جائزہ لیا جس سے اسے یہ کہنے میں یا دعویٰ کرنے میں مدد ملی کہ چوتھے سہ ماہی کا نمو 3.1 فیصد ہے، جبکہ سومیہ کانتی گھوش چیف اکنامک اڈوائزر اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا کہنا تھا کہ آخری سہ ماہی میں نمو صرف 1.2 فیصد رہے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ جنوری 2015 میں حکومت نے معیشت کا BASE YEAR اور فامولہ تبدیل کردیا تھا تاکہ قومی مجموعی پیداوار کا شمار کیا جاسکے یا اس کی گنتی کی جاسکے، جس کے نتیجہ میں شرح ترقی برائے مالی سال 2015 ء 6.4 فیصد تک بڑھ گئی تھی حالانکہ اس سے پہلے اس شرح نمو کا تخمینہ 5 فیصد تک کیا گیا تھا۔ یشونت سنہا نے 2017 میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں واضح طور پر کہا تھا کہ شرح نمو میں کم از کم 200 پوائنٹس یا دو فیصد کا شمار کیا گیا تھا۔ اروند سبرامنیم جو سابق میں چیف اکنامک اڈوائزر رہ چکے ہیں دعویٰ کیا تھا کہ ریسرچ کی بنیاد پر اس میں 250 بنیادی پوائنٹس یا 2.5 فیصد کا تخمینہ کیا گیا۔
سنجیدگی، مکاری نہیں ہوتی
وزیر اعظم نریندر مودی نے خود انحصار یا آتما نربھر ہندوستان کا نعرہ دیا جس کے کئی معنی آتے ہیں۔
یہ ایک آگے دیکھنے والا تصور یا نظریہ ہے ایسا تصور جو اخلاقی اقدار سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہے۔ ایم کے گاندھی جیسی شخصیتوں کے مطابق حکمرانی حکومت میں عہدوں پر قابض ہونے کا نام نہیں بلکہ عوامی خدمت کا نام ہے اور جہاں تک پنڈت جواہر لال نہرو کی اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے متعلق منصوبہ کا سوال ہے آج بھی اس پالیسی کی ضرورت ہے۔