دعوت افطار اور ملبوسات کی تقسیم سے مسلمانوں کی پسماندگی دور نہیں ہوگی

   

تعلیمی ترقی سے متعلق اسکیمات ٹھپ، مذہبی اور سیاسی قیادت دعوت افطار کا بائیکاٹ کرے : نظام الدین
حیدرآباد۔/19 اپریل، ( سیاست نیوز) پردیش کانگریس کمیٹی کے ترجمان سید نظام الدین نے چیف منسٹر کے سی آر کی دعوت افطار کے بائیکاٹ سے متعلق کانگریس کی اپیل کی مکمل تائید کی اور کہا کہ کے سی آر نے گزشتہ 8 برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ دہی کی ہے اس کے جواب میں مسلم جماعتوں، تنظیموں اور علماء و مشائخ کو بائیکاٹ کے ذریعہ اپنی ناراضگی کے اظہار کا بہترین موقع حاصل ہوا ہے۔ نظام الدین نے کہا کہ کے سی آر نے تلنگانہ تحریک کے دوران اور پھر 2014 اور 2018 انتخابی منشور میں مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے بارے میں جو وعدے کئے تھے انہیں فراموش کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کے اندرون چار ماہ 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اسمبلی میں ضابطہ کی تکمیل کے طور پر قرارداد منظور کی گئی اور مرکزی حکومت کو بھیج دیا گیا۔ مرکز کی بی جے پی حکومت مسلم تحفظات کی ہمیشہ مخالف رہی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی چیف منسٹر نے مسلم تحفظات کی قرارداد کو مرکز روانہ کیا۔ نظام الدین نے کہا کہ ریاستی حکومت کو تحفظات میں اضافہ کا اختیار حاصل ہے اور اسے مرکز پر انحصار کی ضرورت نہیں۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی 4 فیصد مسلم تحفظات کا سہرا کے سی آر کے سر باندھ رہے ہیں۔ کے سی آر جب 4 فیصد تحفظات مرکز کی منظوری کے بغیر دلا سکتے ہیں تو پھر 12 فیصد تحفظات میں کیا رکاوٹ ہے۔ نظام الدین نے کہا کہ محمد محمود علی مسلم تحفظات کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ 1994 میں وجئے بھاسکر ریڈی حکومت نے مسلمانوں کیلئے تحفظات کی مساعی شروع کی تھی اور پٹو سوامی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ نظام الدین نے کہا کہ ٹی آر ایس دور حکومت میں 6 مساجد کو شہید کیا گیا۔ کانگریس کے مسلسل احتجاج کے نتیجہ میں سکریٹریٹ کی مساجد کے تعمیری کاموں کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق تمام اسکیمات ٹھپ ہوچکی ہیں۔ نظام الدین نے کہا کہ محض دعوت افطار اور غریبوں کو ملبوسات کی تقسیم سے مسلمانوں کی پسماندگی دور نہیں ہوگی۔ مسلمان ٹی آر ایس اور کے سی آر کی حقیقت کو جان چکے ہیں لہذا اظہار ناراضگی کیلئے مسلمانوں اور مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادتوں کو دعوت افطار کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔ ر