دفعہ 370 کی منسوخی کس کا فائدہ کس کا نقصان؟

,

   

سیاست فیچر
جموں و کشمیر ہندوستان کا جز لائنفک ہے اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن کیا فی الوقت ہمارے ملک میں جموں و کشمیر کے عوام سے انصاف کیا جارہا ہے ؟ کیا ان کی آواز سنی جارہی ہے ؟ کیا جموں و کشمیر کے قدآور سیاسی لیڈروں کو اہمیت دی جارہی ہے ؟ یہ ایسے سوال ہیں جو حالیہ عرصہ کے دوران ریاست کو دستور کی دفعہ 370 کے تحت دیئے گئے خصوصی موقف سے متعلق سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد گردش کررہے ہیں ۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلہ کا تعلق ہے یہ فیصلہ درست ہے یا غیر درست اس بارے میں میں کشمیر کے سیاسی قائدین سے لیکر ملک کے ممتاز ماہرین قانون نے ببانگ دہل اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ملک کے ایک ممتاز ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین وکیل فالی نریمن نے جو کچھ کہا وہ ہماری عدلیہ کیلئے بھی لمحہ فکر ہے ۔ فالی نریمن نے ممتاز صحافی کرن ٹھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑی بیباکی اور حق گوئی کا مظاہرہ کیا ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 11 ڈسمبر کو دیئے گئے اپنے فیصلہ میں جموں و کشمیر کو دستور کی دفعہ 370 کے تحت دیئے گئے خصوصی موقف منسوخ کرنے سے متعلق مودی حکومت کے اقدام کو برقرار رکھا ہے یعنی مودی حکومت کے فیصلہ کو درست قرار دیا ہے لیکن فالی نریمن نے جو سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں اپنے انٹرویو میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ فالی نریمن نے اپنے انٹرویو کے دوران متعدد مرتبہ یہ کہا کہ ان کے خیال میں یہ فیصلہ پوری طرح سے غلط اور قانون کے نظریہ سے دیکھا جائے تو بدتر ہے ۔ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پوری طرح ناقص اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے کیونکہ دستوری طور پر یہ حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ کسی ریاست کا درجہ گھٹاکر اسے مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تبدیل کرے ۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ دفعہ 3 حکومت کو اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 94 سالہ فالی نریمن 1971 سے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور 1991 تا 2010 وہ سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں ان کا شمار ملک کے قابل ترین ماہرین قانون میں ہوتا ہے اور وکلا برادری ان کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت بھی دیتی ہے اب جبکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بدتر قرار دیا ہے ۔ انہوں نے یوں ہی نہیں کہا ہوگا بلکہ اس فیصلہ کے تمام قانونی پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اپنی رائے قائم ہوگی انہوں نے عدالت عظمی کے دو مخصوص پہلوؤں کے حوالے سے غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ایک تو دفعہ 370 کی اکثر و بیشتر دفعات کی منسوخی کو برقرار رکھنے اور جموں و کشمیر تنظیم جدید میں انہوں نے الگ الگ غلطیوں کی نشاندہی کی ۔ فالی نریمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرتا ہے جو اپوزیشن زیراقتدار ریاستوں کیرالا ، ٹاملناڈو یا مغربی بنگال جیسی ریاستوں کے مستقبل یا وفاقیت کے تصور کو جو دستور کے بنیادی ڈھانچے ہیں متاثر کرسکتا ہے واضح رہے کہ انگریزی کے موقر روزنامہ دی ہندو نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ایک فکر انگیز اداریہ تحریر کیا تھا کہ عدالت عظمی کے فیصلہ سے ظاہر ہوتا ہیکہ یہ فیصلہ غیر منطقی فیصلہ ہے کہ جب کوئی ریاست صدر کے ماتحت ہوتی ہے ( صدر راج ہوتا ہے ) تو پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کی طرف سے کسی بھی طرح کا ناقابل تبدیل کام کرسکتی ہے ۔ ایک طرف فالی نریمن سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اس تنقید کے حوالے سے سپریم کورٹ کی توہین کا کوئی ارادہ نہیں ہے بس انہوں نے قانونی نکات کے حوالے سے بات کی ہے ۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ آخر سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دیا ۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہیکہ چیف جسٹس آف انڈیا وائی چندر چوڑ کی قیادت میں ایک بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا دستوری فیصلہ پوری طرح جائز ہے اس فیصلہ کے ساتھ سپریم کورٹ نے ریاست میں 30 ستمبر 2024 سے قبل اسمبلی انتخابات کروانے کی ہدایت بھی دی ۔ آپ کو یہ بتادیں کہ نریندر مودی حکومت نے اگسٹ 2019 میں جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے ۔ سپریم کورٹ کے بنچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دفعہ 370 ایک عارضی شق تھی اور اسے منسوخ کرنے والا آئینی فیصلہ پوری طرح سے جائز ہے ۔ عدالت نے لداخ کو مرکزی زیرانتظام علاقہ بنانے کو کبھی جائزہ ٹھہرایا ۔ اس مقدمہ کی ایک اور اہم بات یہ ہیکہ سالسٹر جنرل نے حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا ہیکہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا ۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مرکز کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ واضح رہے کہ 5 اگسٹ 2019 کو مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے دفعہ 370 کی اکثر شقوں کو ختم کردیا تھا اور جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تھا حکومت کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کم از کم 23 درخواستیں داخل کی گئیں تھیں حد تو یہ ہیکہ دفعہ 370 کی منسوخی سے تقریباً ایک سال قبل یعنی جون 2018 میں جموں و کشمیر اسمبلی کو تحلیل کر کے وہاں صدر راج نافذ کردیا تھا ۔ مودی حکومت کا دعوی ہیکہ دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر میں سیکوریٹی صورتحال میں بہتری آئی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے ۔ تاہم دفعہ 370 کی منسوخی سے کس کا نقصان اور کس کا فائدہ ہوا ہے اس کا جواب تو کشمیری عوام ہی دے سکتے ہیں۔