دلتوں ‘ قبائلی عوام و مسلمانوںکو صحت کے شعبہ میں بھی امتیاز کا سامنا

,

   

میرے خلاف الزامات بے بنیاد۔ حکومت اور میڈیا کا متعصبانہ رویہ ۔ یو پی کے ڈاکٹر کفیل خان کا بیان

حیدرآباد۔ 7 فروری (سیاست نیوز) گورکھپور بچوں کی اموات سانحہ میں اترپردیش حکومت کی تنگ نظری کا شکار ڈاکٹر کفیل خاں نے ملک میں طبی نظام کو بہتر بنانے ملک گیر سطح پر مہم کا آغاز کردیا ہے۔ سیاسی اور مذہبی شدت پسندی کا شکار اس فرض شناس ڈاکٹر کو ملک بھر میں مقبولیت اور ان کے مشن کو اہمیت حاصل ہورہی ہے اور ڈاکٹر کفیل خاں نے اس سلسلے میں ایک فاونڈیشن ڈاکٹر کفیل خاں مشن اسمائیل فاؤنڈیشن قائم کیا ہے اور ان کے عزائم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ملک میں تقریباً بڑے شہروں کا دورہ کرچکے کفیل خاں حیدرآباد پہونچے ۔ جیل سے رہا ہوئے انہیں 10 ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ گورکھپور بی آر ڈی ہاسپٹل میں آکسیجن کی قلت کے سبب اموات کے بعد سے کفیل خاں کے خاندان پر سرکاری آفتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حیدرآباد میں ایک پروگرام کے دوران اترپردیش کے اس ڈاکٹر نے انسانی ہمدردی کے سرکاری انعامات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہیں 9 ماہ جیل کی سزا کے ان لمحات سے زیادہ خوف زدہ بی آر ڈی ہاسپٹل کے وہ 48 گھنٹے دکھائی دیئے ہیںجب کمسن و نولود بچے آکسیجن کی قلت کے سبب فوت ہورہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں۔ اس وقت بی ایس ایف نے مدد کی تھی۔ آکسیجن کی قلت کے سبب جب بارڈر سکیورٹی فورسیس سے مدد مانگی گئی تو فوج نے خود اپنے عملہ کو اپنی گاڑیوں کے ساتھ آکسیجن دے کر روانہ کیا تھا اور حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی معطلی کے خلاف آئندہ ہفتہ الہ آباد ہائیکورٹ سے رجوع ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی پر جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے، یوگی حکومت نے آج 8 ماہ ماہ بعد بھی کسی خاطی کو گرفتار کرنا تو دور اس کی شناخت تک نہیں کرسکی ہے جبکہ یو پی میں پولیس کے حالیہ رویہ اور انکاؤنٹر سے سب واقف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال ایک ہزار بچے فوت اور 2 لاکھ سے زائد معذوری کا شکار ہورہے ہیں اور تمام وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔ کفیل خاں نے بتایا کہ گورکھپور میں 500 بستر کا ایک دواخانہ قائم کرنا ان کا اہم مقصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی ہند کی ریاستوں میں پرائمری ہیلتھ سنٹرس کا رواج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ایچ سی کے سبب سماج کے بڑے طبقہ کو کافی حد تک راحت فراہم کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر کفیل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے مطالبات پر مبنی ایک سفارش تیار کی ہے اور اس سفارش کو وہ 2019کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں سے رجوع ہوکر پیش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے صحت پر مختص کردہ 60 ہزار کروڑ کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے ایک لاکھ 20 ہزار تک اضافہ کرنے اور محکمہ صحت میں مخلوعہ جائیدادوں پر فوری تقررات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت ایک ایسا شعبہ ہے جو سماج کے ہر طبقہ سے جڑا ہے لیکن اب موجودہ دور میں سیاسی نظام اور نظریہ نے اس کو بھی متاثر کردیا ہے۔ دلت و پچھڑے قبائیلی اور مسلمانوں کو صحت کے معاملے میں بھی تنگ نظری کا شکار بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے 81% ڈاکٹرس خانگی شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر ایک ہزار آبادی کیلئے ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے جبکہ ملک میں 10 ہزار آبادی کیلئے ایک ڈاکٹر ہے۔ انہوں نے مرکز کی آیوشمان بھارت اسکیم کو عوام سے دھوکہ اور جھوٹ میں ایک جھوٹ کا اضافہ قرار دیا اور کہا کہ اس اسکیم کی عمل آوری اس کے ثمرات کی فراہمی غیریقینی ہے۔ حکومت 10 ہزار خاندانوں کو 50 کروڑ عوام کو 5 لاکھ روپئے انشورنس کا منصوبہ رکھتی ہے جو اسکیم کے خدوخال کے مطابق کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصیبت میں ان کی مدد کسی سیاسی یا پھر ملی یا مذہبی جماعتوں اور قائدین نے نہیں بلکہ جیل سے رہائی کے بعد ان کا استقبال ایسے افراد نے کیا جن کے بچوں کی بی آر ڈی ہاسپٹل میں موت ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر کفیل خاں نے سماج کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے ان کے مشن کی تائید کی درخواست کی ہے۔