سپریم کورٹ کے احکام ۔ ٹرائیل کورٹ و ہائیکورٹ سے ریکارڈ حاصل کرنے کی ہدایت
حیدرآباد : 26 ستمبر ( سیاست نیوز) سپریم کورٹ نے حیدرآباد میں دلسکھ نگر بم دھماکوں 2013ء کے ایک مجرم اسد اللہ اختر کی پھانسی پر عمل کو روک دیا ۔ دھماکوں میں 18 افراد ہلاک و 131 زخمی ہوئے تھے ۔ اختر جسے 2016ء میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی ، 8ا پریل 2025ء کو تلنگانہ ہائیکورٹ نے اس کی سزا کی توثیق کردی تھی ۔ اختر نے ہائیکورٹ کے حکم کو چیلنج کرکے 20ستمبر کو سپریم کورٹ میں درخواست مرافعہ دائر کی تھی ۔ جسٹس وکرم ناتھ ، جسٹس سندیپ مہتا اور جسٹس این وی انجاریا پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 25 ستمبر کو اس کی سماعت کی ۔ کارروائی کے دوران اختر کے وکیل سیما مشرا نے نشاندہی کی کہ وہ اس وقت دہلی کی منڈولی جیل میں قید ہیں اور درخواست کی کہ کسی بھی احکام کے بارے میں جیل حکام کو آگاہ کیا جائے ۔ اس نے ایس ایل پی داخل کرنے میں 75 دن کی تاخیر کیلئے بھی معافی مانگی جسے عدالت نے قبول کیا ۔ بنچ نے نہ صرف سزائے موت پر عمل روک دیا بلکہ یہ بھی ہدایت کی کہ ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ دونوں سے اصل ریکارڈ حاصل کیا جائے ۔ بنچ نے جیل میں اختر کے طرز عمل کا بھی تفصیلی جائزہ لینے کا حکم دیا ۔ انہوں نے آٹھ ہفتوں میں تین رپورٹس پیش کرنے کو کہا ۔ ایک پروبیشن آفیسر کی طرف سے جو مجرم کے رویہ کی نگرانی کرتا ہے ، دوسری جیل سپرنٹنڈنٹ سے جیل کے اندر سرگرمیوں اور طرز عمل پر اور تیسری اس کی ذہنی صحت کی حالت کا جائزہ لینا ۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ وہ ان ہدایات کو فوری دہلی حکومت کے کونسل کو بھیجے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ جیل حکام انہیں وصول کریں اور اس کے مطابق کارروائی کریں ۔ اس معاملہ کی اگلی سماعت 12 ہفتوں بعد ہوگی ۔ اس وقت تک تمام ریکارڈ اور رپورٹس عدالت کے سامنے پیش کی جانی چاہیئے ۔ اخترکی قانونی ٹیم کو دو ہفتوں میں پٹیشن میں خامیوں کو دور کرنے کہا گیا ۔ 21 فبروری 2013 کو دلسکھ نگر بم دھماکوں کے ملزم کو این آئی اے کے ثبوتوں کی بنیاد پر خصوصی عدالت نے 13 ڈسمبر 2016ء کو اختر کو موت کی سزاء سنائی تھی ۔ فیصلہ کو تلنگانہ ہائیکورٹ نے برقرار رکھا تھا جس کو اختر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔ ش