دنیا بھر سے زبردستی چھینے گئے نوادرات سے سجا برٹش میوزیم

   

لندن۔ برطانیہ کا برٹش میوزیم جسے تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا میوزیم مانا جاتا ہے ، اپنے پاس بے شمار ایسے نوادرات رکھتا ہے جو دیگر ممالک سے چھینے گئے ہیں۔ مشہورِ زمانہ برٹش میوزیم عالمی تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے ، ہر سال لاکھوں افراد اس میں موجود 80 لاکھ سے زائد ثقافتی و تاریخی نوادرات اور فن پارے دیکھنے کے لیے آتے ہیں جو انسان کی 20 لاکھ سال کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔ اے آر وائی نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق اس عجائب گھر کے قابل دید نوادرات میں موجود آدھی چیزیں ایسی ہیں، جن کی ملکیت پر اس وقت تنازعہ ہے ۔ ایک طرف برٹش میوزیم ان نوادرات کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری جانب ایسی مہمات بھی شروع ہوئی ہیں جن میں یہ آثار واپس اصل ممالک کو دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اب واضح طور پر دو گروپس موجود ہیں، ایک وہ جو عجائب گھروں کی متنازعہ چیزوں کو اصل ممالک کو واپس کرنے کے حامی ہیں اور دوسری جانب وہ حلقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ مغرب کے عجائب گھروں میں یہ تاریخی نوادر زیادہ محفوظ ہیں لیکن یہ ساری چیزیں آخر برطانیہ پہنچیں کیسے ؟ اس کے لیے ہمیں 17 ویں صدی میں جانا پڑے گا جب برطانیہ نے دنیا کے مختلف علاقوں پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے تھے ۔ پھر اس نے کئی بر اعظموں پر قبضے کیے اور بالآخر تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بنا ڈالی جو دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ صدیوں تک ان نو آبادیاتی مقبوضات کا استحصال کیا گیا، جنوبی افریقہ سے لے کر ہندوستان اور آسٹریلیا سے لے کر نائیجیریا تک نہ صرف وہاں کے وسائل اور دولت کو لوٹا گیا بلکہ ثقافتی نوادرات اور آثار قدیمہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس لوٹ مار سے حاصل کیے گئے بیشتر مال کا ٹھکانہ برٹش میوزیم بنا جسے 1753 میں تعمیر کیا گیا تھا اور پھر یہ پھیلتا ہی چلا گیا۔آج اس عجائب گھر میں ایسے نوادرات بھی ہیں جو قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کی ملکیت پر شبہات ہیں، یہاں تک کہ عجائب گھر میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر جس پہلی چیز پر پڑے گی، وہ بھی دراصل چوری ہی کی ہے ۔ روزیتا کی لوح جسے برطانیہ نے مصر میں موجود فرانس کی قابض افواج سے چھینا تھا۔ اس کے علاوہ پارتھینن کے کچھ حصے جو دراصل ایک برطانوی لارڈ نے ایتھنز میں موجود قلعے سے نکالے تھے اور بعد میں برٹش میوزیم کو دیے یا پھر سب سے متنازع افریقہ کے بنین برونز۔ ہاتھی دانت پر کندہ کاری سے لے کر کانسے سے بنے مجسموں تک، یہ کئی اقسام کی نوادرات دراصل بنین کی سلطنت سے لوٹی گئی تھیں، جو آج کل نائیجیریا کا حصہ ہے ۔ یہ فن پارے 16 ویں صدی میں اس سلطنت میں بنائے گئے تھے جن میں سے بیشتر آراستہ دیواروں کا حصہ تھے جنہیں مذہبی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن دراصل ان میں اس خطے کی پوری تاریخ موجود تھی۔یہ ہزاروں فن پارے سنہ 1897 میں چوری ہونا شروع ہوئے جب یورپ کی نوآبادیاتی طاقتیں افریقہ پر قبضہ کر چکی تھی۔ یہ اتنی منظم لوٹ مار تھی کہ انہوں نے اس براعظم کو باہم تقسیم کر لیا تھا تاکہ سب اس کا مالی استحصال کریں اور فائدہ اٹھائیں۔جو علاقے برطانیہ کے حصے میں آئے ، بنین بھی انہی میں سے ایک تھا لیکن یہاں کی ریاست نے برطانیہ کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔