دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے واقعات تشویشناک

   

خواتین اور لڑکیوں کی سب سے زیادہ اسمگلنگ، سہ روزہ قومی سمینار سے سرکردہ شخصیتوں کا خطاب

حیدرآباد۔/8 فبروری، ( سیاست نیوز) دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے واقعات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کو ایک لعنت قرار دیا جو منشیات کے بعد دنیا بھر میں دوسرا سب سے بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ سمبیاسیس لاء اسکول حیدرآباد میں ’’ انسانی اسمگلنگ اور اس کے مختلف اثرات ‘‘ کے عنوان پرآج دو روزہ قومی سمینار کا آغاز ہوا جس میں کئی سرکردہ شخصیتوں نے طلبہ کو اپنے لیکچرس کے ذریعہ کئی اہم نکات سے واقف کروایا۔ اس سمینار میں جزوی طور پر یہ تبادلہ خیال کیا گیا کہ ہندوستان میں کس طرح انسانی اسمگلنگ بالخصوص خواتین و بچوں کی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ اس موقع پر مشہور سماجی جہد کار و صحافی روچیر گپتا نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ انسانی اسمگلنگ دنیا میں سب سے بڑے پیمانہ پر منظم طریقہ سے چلایا جانے والا جرم ہے ان میں 70 فیصد خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا انسانی اسمگلنگ کی لعنت سے متاثر ہے اور ہندوستان میں اسمگلنگ کی جانے والی لڑکیوں کی عمر 9 سال سے 13 سال کی تعداد زیادہ ہے۔ روچیر گپتا نے کہا کہ اقوام متحدہ نے بھی اس لعنت کی روک تھام کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں سے لیکر جوان خواتین کو بھی جسم فروشی کے کاروبار میں ڈھکیلا جارہا ہے اور اس کے ذمہ دار دلال قانون کے چنگل سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں سات سال کی عمر والی لڑکیوں کو بھی اس کاروبار میں فروخت کیا جاچکا ہے۔ اس موقع پر ریٹائرڈ آئی پی ایس عہدیدار پی ایم نائیر نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کا مطلب انسانوں کو فروخت کرنا ہے اور اس کاروبار کے ذریعہ کئی افراد کروڑہا روپئے کمارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بچوں سے لے کر خواتین کو بھی جسم فروشی میں ڈھکیلا جارہا ہے۔ مسٹر نائیر نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ جرم کا مجموعہ ہے کیونکہ اس میں لڑکے، لڑکیوں اور خواتین کی خرید و فروخت کی جاتی ہے اور ان کا جسمانی اور ذہنی استحصال کیا جاتا ہے۔ سابق آئی پی ایس عہدیدار جنہوں نے اسوقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی قتل کیس کی تحقیقات میں اہم رول ادا کیا تھا نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کا شکار کوئی بھی لڑکی یا خاتون ہوسکتی ہے چونکہ اسمگلرس کوئی اور نہیں متاثرہ افراد کی جان پہچان والے ہی ہوتے ہیں۔ دو روزہ سمینار میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کئے گئے جسٹس نادرہ پاترے نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کو جرائم پیشہ افراد نے ایک صنعت بنالیا ہے اور اس میں بچوں اور خواتین کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے بچو ں اور خواتین کی بروقت مدد ضروری ہے اور ہندوستان بھی اس لعنت کا شکار ہے۔ جسٹس نادرہ نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کرے اور بین ریاستی اور بین الاقوامی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے اپنی خصوصی توجہ مرکوز کرے۔ اس موقع پر سمبیاسیس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس لعنت کو روکنے کیلئے حکومت ایک پالیسی تیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت منظم طور پر حکمت عملی تیار کرے اور خاطی اسمگلرس کو سزا یقینی بنائے۔ ڈاکٹر سرفراز احمد نے کہا کہ ملک میں ایسے کئی قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انسانی اسمگلنگ میں کمی نہیں دیکھی گئی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یونیورسٹی کے طلبہ کو واقف کروایا کہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق تمام تفصیلات وقتاً فوقتاً حاصل کریں اور اس کی روک تھام کیلئے ہر ممکن کوشش کریں۔