دنیا بھر میں 160 ملین بچہ مزدور

   

سیاست فیچر
دُنیا بھر میں بچہ مزدوروں کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ اُن کی بہبود کی باتیں ہوتی ہیں، سرکاری و غیرسرکاری سطح پر بچوں کو بچہ مزدوری سے بچانے کے اقدامات کرنے کے دعوے بھی کئے جاتے رہتے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آخر کس وجہ سے بچے کم عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور بازاروں، مارکٹوں، ہوٹلوں ، گیاریجس، نمائشوں وغیرہ میں کام کرتے ہوئے اپنا روشن مستقبل تباہ کرلیتے ہیں حالانکہ ان کی عمر کام کاج یا محنت کی نہیں بلکہ کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ ہر سال 12 جون کو عالمی سطح پر یوم مخالف بچہ مزدوری منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ بچہ مزدوری کے بچوں پر کیا معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا بھر میں پانچ سال سے زائد عمر کے کم از کم 160 ملین بچے بچہ مزدوری کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے بچے جو کام کاج کرنے یا مزدوری کرنے کی عمر کے نہیں ہوتے، بہت چھوٹے ہوتے ہیں، انہیں بچہ مزدور کہا جاتا ہے یا ایسے بچے جو انتہائی نقصان دہ ماحول میں یعنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں جو ان کی جسمانی، ذہنی، سماجی اور تعلیمی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اسے ’’بچہ مزدوری‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں سب سے زیادہ بچہ مزدور زرعی شعبہ میں سرگرم ہیں۔ اس شعبہ میں 5 تا 17 سال عمر کے بچے کام کرتے ہیں جو جملہ بچہ مزدوروں کا 70% حصہ ہیں۔ صنعتوں میں 10.3% اور خدمات کے شعبہ میں 19.7% بچہ مزدور خدمات انجام دیتے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر کم از کم 79 ملین بچے خطرناک کام کرتے ہیں جو ان کی صحت اور سیفٹی کیلئے ایک جوکھم ہوتا ہے۔ بچہ مزدوری نہ صرف طلبہ کو حق تعلیم سے محروم کردیتی ہے بلکہ ان کے نمو کے مواقع بھی کم کردیتی ہے۔ ان کے حقوق کو محدود کردیتی ہے۔ مستقبل کے مواقع کو کم کردیتی ہے جو ان کی غربت و افلاس کا باعث بن جاتی ہے۔ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ کئی بچے غیرصحت مندانہ حالات میں کام کرتے ہیں۔ وہاں حفظان صحت کا کوئی نظم نہیں ہوتا۔ سیفٹی کے آلات بھی انہیں میسر نہیں ہوتے مثلاً زرعی ،کانکنی ، تعمیراتی اور مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ساتھ ہی ہوٹلوں، شراب خانوں، ریسٹورنٹس ،بازاروں اور گھروں میں کام بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
ٹی وی چیانل ’’الجزیرہ‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خطرناک ماحول میں کام کرنے والے بچہ مزدوروں کی سب سے زیادہ تعداد آفریقہ میں پائی جاتی ہے، جہاں 5 تا 17 سال عمر کے 41.4 ملین بچہ مزدور انتہائی خطرناک ماحول میں کام کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایشیا بحرالکاہل کا علاقہ ہے جہاں 22.2 ملین بچہ مزدور مزدوری کرتے ہیں۔ یوروپ اور وسطی ایشیا میں 7.9 ملین جنوبی و شمالی امریکہ کے علاقہ میں 5.7 ملین اور عرب ملکوں میں 1.9 ملین بچے بچہ مزدوری پر مجبور ہیں۔ یہ بچے کئی کئی گھنٹوں تک سخت محنت کرتے ہیں یا انہیں کئی گھنٹوں تک کام کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ کام کے باعث بچہ مزدور ، کھیل کود اور دوسری سرگرمیوں سے دُور ہوجاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں عام بچوں کی طرح خوشیاں نہیں ہوتیں۔ بچہ مزدور اپنے کمزور ہاتھوں اور کندھوں پر وزنی سامان اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انہیں خطرناک اور نقصان دہ مادے بھی اُٹھانے پڑتے ہیں۔ کام کے مقامات پر بچہ مزدوروں کو جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر منظر عام پر آئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 160 ملین بچہ مزدوروں میں 63 ملین لڑکیاں اور 97 ملین لڑکے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء کے اواخر تک بچہ مزدوروں کی تعداد میں 8.9 ملین کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کا اہم سبب شدید غربت ہے۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے، 27 جون 2021ء کو ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس پر بتایا گیا کہ دنیا میں ہر 10 بچوں میں ایک بچہ ’’بچہ مزدور‘‘ ہے۔ سال 2022ء تک مزید 9 ملین بچوں کے بچہ مزدور بننے کا جوکھم پایا جاتا ہے، حالانکہ عالمی برادری نے 2025ء تک دنیا سے بچہ مزدوری کی لعنت ختم کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کووڈ کی عالمی وباء کے نتیجہ میں بھی بچہ مزدوری میں اضافہ ہوا ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان نے 2025ء تک ملک سے بچہ مزدوری کے رجحان کو ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے لیکن موجودہ حالات سے تو ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ آئندہ 30 برسوں تک بھی ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کا جہاں تک تعلق ہے، 5 تا 17 سال کی عمر کے بچہ مزدوروں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عمر کے گروپ کے 5.8 ملین بچہ مزدور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ 5 ملین بچہ مزدوروں کے ساتھ بنگلہ دیش دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 3.4 ملین ، نیپال میں 2 ملین بچہ مزدور کام کرتے ہیں۔