دنیا دوسری عالمی جنگ کی تباہی سے درس کیوں نہیں لیتی ؟

   

پروین کمال

ایک انتہائی معمولی حقیر سا ذرہ یا آئٹم جو ننگی آنکھ سے نظرنہیں آتا، فضاء میں اس کے پہنچتے ہی کیسے ہزاروں انسان آنِ واحد میں موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔ عالیشان عمارتیں منٹوں میں مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دھواں، گرد و غبار اور آگ کے لپکتے شعلے یہ وہ منظر ہے جو دو ملکوں کے تصادم کے نتیجے میں نظر آتا ہے۔ کرۂ ارض پر کب تک نسل آدم پر یہ ظلم و ستم ہوتا رہے گا، کب تک تابکاری کے اثرات سے زمین نیم جاں ہوتی رہے گی، اس لامتناہی کائنات میں زمین تو ایک ذرہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے قریب سے اگر اجرام فلکی کا کوئی ایک سیارہ تیزی سے گذر جائے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے، گویا نسل آدم ایک متزلزل پہاڑ پر کھڑی ہے۔ پھر بھی آدم کی اس دنیا میں بسنے والے انسان دولت، عزت اور شہرت کے شوق میں اور خاص طور پر حکمرانی و اقتدار حاصل کرنے کے جنون میں ایسے غلطان ہیں کہ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم سب ایک متزلزل پہاڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر پہاڑ کسی دن اپنا توازن کھودے تو ہم منٹوں میں ’’بوتل کے جن‘‘ کی طرح غائب ہوجائیں گے، لیکن یہ بات صرف کتابوں میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوئے 77 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس کی تباہیوں کا ازالہ ہونے کے بعد دنیا میں بہت ساری سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آئیں اور دنیا بھر میں تیزی سے ’’علاقائی گروپنگ‘‘ کا رواج تقویت پانے لگا، خاص طور پر یوروپ میں ’’مشترکہ یوروپی گھر‘‘ کا رجحان بڑھتا گیا اور اس کے تحت یوروپ نے اتنی ترقی کی کہ آج خود یوروپی اقوام کی نظریں وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں، لیکن اب حالات حاضرہ کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ یوروپی دنیا پھر ایک بار پیچھے کی طرف جارہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بموجب یوروپ ایک مہیب جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے حالانکہ تقریباً 80 سال قبل ہونے والی جنگ کے اثرات ابھی انسانوں کے ذہنوں سے نہیں اُترے۔ ایک معمر خاتون ماضی میں ہوئی اس جنگ کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہے: ’’وہ خطرناک ٹینک ہماری گلیوں میں تک گھس آتے تھے، جس کی دہشت ناک آواز سے میں کانپنے لگتی تھی اور تب میری ماں میرے کانوں میں روئی ٹھونس دیتی تھی تاکہ خوف کچھ کم ہوجائے‘‘۔ محترمہ کا بیان سن کر مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی کانپ رہی تھیں۔ مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ جنگی حالات کس شدت سے انسانوں کے حواس پر اثرانداز ہوتے ہیں کہ زندگی بھر بھلائے نہیں جاسکتے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یوروپی اقوام کے ذہنوں سے لفظ ’’جنگ‘‘ حذف ہوجاتا لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ ایک اور جنگ کے سائے یوروپی افق پر منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان میزائل جنگ کی شروعات ایک بہت بڑے خطرے کا اعلان ہے جس سے افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ یوکرین کے شہریوں کی بہت زیادہ تباہی ہورہی ہے اور بے قصور افراد کیلئے انہیں کے ملک کی سرزمین ان کیلئے تنگ ہوگئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں رقتِ سفر باندھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دراصل اس جنگ کی وجہ یوکرین کا یوروپی یونین میں شمولیت حاصل کرنے کا رجحان تھا جو روس کو منظور نہیں تھا۔ اس بات کو لے کر 2013ء سے ہی روس اور یوکرین کے تعلقات میں دراڑ پڑنے لگی اور آج حالات سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں۔ یوکرین ایک چھوٹا سا 40 ملین والا ملک ہے جس نے 30 سال قبل سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد آزادی حاصل کرکے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے، لیکن علیحدہ ہونے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے لیکن اب کشیدگی پیدا ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں ایک خاص وجہ یہ بھی نکل آئی ہے کہ روس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جو روسی نسل برسوں سے آباد ہے ، جنکی روسی زبان بولنے کی پاداش میں نسل کشی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے روس کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ غرض ان دونوں کے درمیان جو معاہدات ہوئے تھے۔ ان میں یہ بھی تھا کہ یوکرین ، نیٹو (NATO) کا حصہ نہیں بنے گا اور یہ بھی کہ ایٹمی طاقت بننے کی کوشش نہیں کرے گا ، یہ کچھ ایسے شرائط تھے جو دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کو فضاء بناتے رہے اور حالات اتنے سنگین ہوتے گئے کہ میزائل حرکت میں آگئے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیسے میزائل دھواں اور آگ اگل رہے ہیں اور ایک افراط و تفریط کا سا عالم ہے۔ بہرکیف دنیا کے دو بڑے ملک ہتھیاروں کو کم کرنے کے حامی ہیں۔ یہ خبر سن کر دنیا نے سکون کا سانس لیا تھا۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ پھر ایک بار ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ آج پھر سے ہتھیار فراخدلی سے استعمال کئے جارہے ہیں اور امن و سکون قائم کرنے کے وہ معاہدات طاق نیہاں ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب ان معاہدات کا کہیں ذکر تک نہیں آتا۔ ہمارے ذہنوں میں جو ایک پرامن ماحول کا تصور ہے۔ وہ تو بس ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔ بہرحال جنگ کب ختم ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جلد یا بدیر ایک دن جنگ تو ختم ہونا ہی ہے لیکن یہاں چند اہم نکات سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں کہ کیا ایٹمی ہتھیار سے تباہ ہونے والی زمین دوبارہ بارآور ہوگی؟ کیا عمارتوں کی باقیات میں شہری دوبارہ آباد ہوسکیں گے؟ وہ طبقہ جو بے یارو مددگار دوسرے ملکوں میں ہجرت کا کرب سہنے کیلئے نکل پڑا ہے، کیا اسے عافیت ملے گی؟ کیا وہ بے قصور انسان جو اس ملک کی زینت تھے اور جو جاں بحق ہوگئے، ان کے اہل و عیال کو ان کا نعم البدل ملے گا؟ علمی فراست رکھنے والی باشعور قومیں اس ایٹمی ذخیرہ کو اپنی میراث سمجھ کر اس پر فخر کرتی ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آیٹم ان کی عوام کیلئے زہر قاتل کا کام کررہا ہے اور ملک ویرانے میں تبدیل ہورہا ہے۔ آنے والی نسلوں کیلئے یہ ملک کیا چھوڑ جائیں گے، اس وقت ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی میں ہوئی جنگوں کے نتائج کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر دوسری عالمی جنگ جو دنیا کے تمام ملکوں کیلئے ایک بہت بڑا درس ہے، جس کے عواقب و نتائج آج تک شدہ شدہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں نظر آتے ہیں، لیکن کوئی اس طرح توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتا۔ بہرکیف وقت ہمارے دامن میں بہت سارے تجربے ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اب یہ تو ہماری عقل و فہم پر منحصر ہے کہ اس کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔