٭ سیکل پر تھریسور سے لداخ کا سفر کرنے والے محمد اشرف کی حیدرآباد آمد
٭ ایک پیر مفلوج ہونے کے باوجود حوصلے بلند
حیدرآباد ۔ 28۔جولائی ۔ ( سیاست نیوز) میری ماں نے مجھے زندگی کا سلیقہ و طریقہ سکھایا ، میرے اخلاق و کردار سنوارے، مجھے علم و ہنر سے سجایا ، میری شخصیت کو نکھارا اور آج میں جو کچھ ہوں وہ میری ماں زبیدہ کی وجہ سے ہوں ۔ اس کیلئے اپنے رب ذوالجلال کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں۔ ماں نے ہی مجھ میں عزم و حوصلہ پیدا کیا اور بتایا کہ زندگی میں محنت دیانت داری و سچائی ہو تو وہ کامیاب رہتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار کیرالا کے تھریسور کے رہنے والے 35 سالہ محمد اشرف نے نمائندہ سیاست سے بات کرتے ہوئے کیا ۔ محمد اشرف نے اپنے شہر سے لداخ تک سیکل پر سفر شروع کیا ہے اور ان کے اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا دایاں پیر مفلوج ہے اور وہ بائیں پیر سے ہی سیکل کا پینڈل چلاتے ہیں ۔ 16 جولائی کو انھوں نے سیکل پر اپنے سفر کا آغاز کیا اور تاحال کیرالا ، تاملناڈو ، آندھراپردیش اور کرناٹک کا سفر مکمل کرتے ہوئے حیدرآباد تلنگانہ میں داخل ہوئے اس طرح انھوں نے اب تک زائد از 1200 کیلومیٹر کا سفر طئے کیا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ محمد اشرف موٹر سیکل پر کرتب بازی کے ماہر تھے اور اس مہارت کے مظاہرہ کے دوران کبھی بھی انھیں معمولی خراش تک نہیں آئی لیکن 2017 ء میں تھریسور میں ہی وہ ایک سڑک حادثہ کا شکار ہوئے اور وہیں سے ان کی زندگی پوری طرح بدل گئی ۔ حادثہ اس قدر خطرناک تھا کہ تین برسوں تک وہ اسپتال میں زیرعلاج رہے۔ ان کے سیدھے پیر کے 9 مرتبہ آپریشن کئے گئے کیونکہ اس حادثہ میں ان کے پیر کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں تھے ایک طرح سے سیدھا پیر پوری طرح مفلوج ہوکر رہ گیا تھا ۔ ڈاکٹروں نے اُمید چھوڑ دی تھی لیکن ماں نے اپنے بیٹے میں جو عزم و حوصلہ پیدا کیا تھا وہ باقی رہا اور محمد اشرف نے اس بات کا عزم مصمم کرلیا کہ وہ ہر حال میں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے ، معمول کی زندگی گذاریں گے اور کسی کے محتاج نہیں رہیں گے ۔ محمد اشرف کے مطابق زندگی میں انھوں نے بے شمار آزمائشوں کا سامنا کیا ۔ مثال کے طورپر دو مرتبہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ۔ کبھی کبھار دائیں پاؤں میں ناقابل بیان درد سے بھی گذرے ، اس سفر کے دوران بھی سیدھے پاؤں کی تکلیف نے انھیں ستایا ۔ وہ ہر روز 120 تا 150 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرتے اور پھر پٹرول پمپس یا سڑکوں کے کنارے دھابوں میں رات گذارتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ مختصر سامان رکھا ہے ۔ ایک فولڈیڈ ٹینٹ ( خیمہ ) اور سلیپنگ بیاگ ہے ۔ وہ اپنے ارکان خاندان کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ ان کی اہلیہ جاسمین معلمہ ہیں بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں ۔ 18 ماہ کا ایک بیٹا امان خالدہے۔ ایک بھائی اور ایک بہن ہے ۔ بہن کی شادی ہوچکی ہے ۔ بھائی ٹراویلنگ ایجنسی میں کام کرتے ہیں ۔ محمد اشرف نے آئی ٹی میں تین سالہ ڈپلوما کیا لیکن اب سائیکلنگ سے جڑ گئے ہیں۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سیکل پر 5 ماہ کے سفر کے دوران وہ 10 تا 12ہزار کلومیٹر کافاصلہ طئے کریں گے اور اگر نیپال کی سرحدیں کھلی رہتی ہیں تو وہ نیپال میں بھی داخل ہوں گے ۔ محمد اشرف کے خیال میں اگر آپ عزم و حوصلہ رکھتے ہیں اور پختہ ادارے ہوں تو پھر آپ ہر معذوری پر قابو پاسکتے ہیں۔ وہ اپنا سفر خردونگا پاس پر بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں جو دنیا کی بلند ترین موٹر ایبل روڈ ہے ۔محمد اشرف نے راقم الحروف کو مزید بتایا کہ اُنھیں اس سفر میں گیارہ ریاستوں کو عبور کرنا ہے اور اب تک جن ریاستوں سے وہ گذرے ہیں حیدرآباد کی رنگارنگی ، یہاں کی رونق ، گنگا جمنی تہذیب سے وہ بات متاثر ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیدرآباد نے اپنے دامن میں بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ہر ہندوستانی کو پناہ دی ہے ۔ شائد اس شہر کی خوشحالی اور کامیابی کا راز بھی یہی ہے ۔ محمد اشرف ایک یوٹیوبر بھی ہیں۔ آپ ان کی انسٹاگرام آئی ڈی muthu_the_motivator پر بھی ان کے پروفائل اور سرگرمیوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے ۔ محمد اشرف فی الوقت اپنے سفر کو جاری رکھنے اسپانسر کی تلاش میں ہیں ان سے فون نمبر 9207181338پر ربط کیا جاسکتا ہے۔