نئی دہلی: سپریم کورٹ اترپردیش میں حادثے کا شکار مجرم وکاس دوبے کے انکاؤنٹر معاملے کی جانچ کے لئے ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل عدالتی کمیشن کی تشکیل نو کرے گی اور اس بارے میں چہارشنبہ کو حکم جاری کرے گی۔چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے ،جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رماسبرامنیم کی بنچ نے سالسیٹرجنرل تشارمہتا اور اترپردیش حکومت کی جانب سے پیش ہریش سالوے کی دلیلیں سننے کے بعد کہا کہ وہ ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل جانچ کمیشن کی تشکیل نو کرکے اس میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جج اورریٹائرڈپولس افسرکو شامل کرے گی۔ریاستی حکومت نے جانچ کمیشن کے تشکیل نو کے سلسلے میں حامی بھرلی، اس کے بعد عدالت نے چہارشنبہ کو سماعت کی تاریخ مقررکرتے ہوئے مہتا کو متعلقہ نوٹیفیکیشن کا مسودہ اس دن پیش کرنے کا حکم دیا۔ بنچ نے کہاہے کہ وہ مسودہ دیکھنے کے بعد حکم جاری کرے گی۔بنچ پیشے سے وکیل گھنشیام اپادھیائے ، انوپ پرکاش اوستھی، وویک تیواری کے علاوہ غیرسرکاری تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹی (پی یو سی ایل) اورکچھ دیگر عرضی گذاروں کی عرضیوں کی مشترکہ طور پر سماعت کررہی تھی۔اس سے پہلے سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اترپردیش میں قانون وانصرام کے سلسلے میں کئی سوالات کئے ۔مہتا نے جب عدالت کوبتایا کہ دوبے پر 65 معاملے درج تھے اور وہ پیرول پر باہر تھا۔ اس پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ وکاس دوبے نے کیا کیا تھا، یہ عدالت کو مت بتایئے ۔ انہوں نے کہاکہ آپ بتایئے کہ اتنی واردات کو انجام دینے کے بعدوہ ضمانت پرباہر کیسے آیا؟ عدالت نے اس کی ضمانت سے متعلق سارے احکامات حکومت سے طلب کئے ۔عدالت نے تلنگانہ کے حیدرآباد میں ہوئے انکاؤنٹر کا موازنہ جب دوبے کے انکاؤنٹر سے کیا تو مہتا نے کہاکہ دونوں انکاؤنٹرس کو ایک جیسا نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اس پرجسٹس بوبڈے نے پوچھا کہ سالسیٹر جنرل ہمیں بتائیں کہ یہ حیدرآباد انکاؤنٹر سے کس طرح الگ ہے ؟ انہوں نے کہاکہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ریاست میں قانون وانصرام قائم کرنا۔اس درمیان عرضی گذاروں میں سے ایک پی یوسی ایل کی جانب سے معاملے کی پیروی کررہے سینئر وکیل سنجے پارکھ نے دلیل دی کہ 2017 ء میں ریاست میں 1700 ء سے زیادہ انکاؤنٹرس ہوئے ۔ اس لئے ان کی جانچ بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرائی جانی چاہئے ۔