دورۂ ایران کی روداد روضہ امام رضا ؑ پر حاضری

   

قرآن میوزیم ، کتب خانہ کا مشاہدہ

محمد ریاض احمد
دنیا کی قدیم ترین اور ترقی یافتہ تہذیبوں میں ’’ایرانی تہذیب‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ سرزمین ایران کو اللہ عزوجل نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور اس سرزمین پر علم اور فن کے ایسے ایسے گوہر نایاب پیدا کئے جن کے وجود پر شاید تقدیر نے بھی بارگاہ رب العزت میں سربسجود ہوکر شکر بجا لایا ہوگا اور تقدیر نے خود اپنی تقدیر پر ناز کیا ہوگا۔ حالیہ دورۂ ایران کے موقع پر راقم الحروف کو جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایران کی ترقی کے مشاہدہ کا موقع ملا، وہیں روضہ حضرت امام رضاؑ پر حاضری کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ساتھ ہی سرزمین ایران پر علم کے جو چراغ روشن ہوئے تھے اور جن کی روشنی سے چہار دنگ عالم منور ہوا تھا، ان کے بارے میں بھی جاننے کا شرف حاصل ہوا۔ سرزمین ایران کیلئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اس کے دامن میں حضرت امام رضا ؑ اور آپ کی بہن بی بی فاطمہ معصومہ آرام فرما رہی ہیں۔ شہر قم میں ایک ہی گنبد کے نیچے 40 امام زادے اور امام زادیاں آرام فرما رہے ہیں جنہیں ’’چہل اختران‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں حضرت امام محمد تقی ؒ کے چھوٹے بھائی حضرت سید موسیٰ مبرقع ؒکی قبر مبارک بھی ہے۔
قارئین! اپنے دورہ ٔایران کی روداد کے پہلے حصے میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ آئندہ کے مضمون میں شہر مشہد مقدس کے سفر کی تفصیلات پیش کریں گے۔ ’’مشہد‘‘ ایسے بابرکت مقام کو کہتے ہیں جہاں شہید دفن ہوں۔ مشہد مقدس کو ’’مشہد رضا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایران میں کم از کم پانچ ایسے شہر ہیں جو مشہد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ اسلام میں ’’خراساں‘‘ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی اور مستقبل میں حق و باطل کا جو معرکہ ہوگا، اس میں بھی ’’خراساں‘‘ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے والا بے شمار مواد موجود ہے۔ علماء و مشائخین اور دانشوران کے خیال میں آخری زمانے میں ’’خراساں‘‘ سے ہی مجاہدین اسلام کے ایسے لشکر اور قافلے نکلیں گے جو دَجالی طاقتوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کا خاتمہ کردیں گے۔ اس ضمن میں احادیث بھی موجود ہیں۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے، مشہد مقدس کی یہ وہی مقام ہے جس نے ہر لحاظ سے ایران میں توازن برقرار رکھا ہے۔ اسی شہر میں حضرت امام رضاؑ آرام فرما رہے ہیں اور جہاں اقطاع عالم سے ہر روز لاکھوں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ آپ کے روضہ کی جو گنبد ہے ، دراصل گنبد پر گنبد تعمیر کی گئی ہے۔ یہ گنبد 3000 سال پہلے تعمیر کی گئی تھی جس کی تفصیل ہم آپ کو آگے کی سطور میں بتائیں گے۔ جہاں تک مشہد کی آب و ہوا کا سوال ہے تو یہ معتدل ہے۔ ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے آتش پرستوں کی حکومت تھی۔ دراصل اس دور کا جو گورنر ہوا کرتا تھا، اس کا Summer Palace مشہد میں تھا۔ مشہد زمانے قدیم میں ثناء آباد کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آج جہاں امام رضاؑ کا روضہ ہے وہاں ایک وسیع و عریض اور عالیشان محل ہوا کرتا تھا اور یہ محل انتہائی خوبصورت باغ کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ قریب ایک چھوٹا سا گاؤں بھی تھا۔ ہاں تاریخ کا مشہور و معروف مقام طوس مشہد سے صرف 30 کیلومیٹر پر واقع ہے۔ بہرحال گورنرس موسم گرما میں ثناء آباد (مشہد) آجایا کرتے اور محل میں ان کا قیام ہوتا۔ تاریخ میں درج ہے کہ جب خلیفہ ہارون رشیدؒ کے دور خلافت میں خلافت کے خلاف موجودہ قازقستان میں بغاوت اُٹھی، وہ خود اپنے پایہ تخت بغداد سے اس ارادہ سے نکلے کہ بغاوت کو کچل دیا جائے۔ وہ بغداد سے نکل کر ثناء آباد کے سمر پیالیس میں آکر رک گئے ۔وہیں ان کی طبیعت خراب ہوگئی، انہوں نے رات محل میں ہی آرام کیا اور خواب میں حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ کو دیکھا، وہ اس گنبد کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نیچے آج حضرت امام رضاؑ کی قبر مبارک ہے۔ اس خواب کے ساتھ ہی وہ اُٹھ بیٹھے اور اپنے وزراء اور فوجی کمانڈروں کو طلب کرکے سارا خواب بیان کیا اور بتایا کہ ابھی ابھی میں نے حضرت موسیٰ کاظم ؑ کو گنبد کے بالکل نیچے بیٹھے دیکھا ہے، شاید یہ میری آخری رات ہو اور اگر میری روح اس قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو گنبد کے نیچے اس مقام پر مجھے دفن کردینا جہاں میں نے حضرت موسیٰ کاظم ؑ کو بیٹھے دیکھا تھا چنانچہ اسی رات خلیفہ ہارون رشیدؒ کا انتقال ہوگیا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں وہیں دفن کردیا گیا جس کے بعد Summer Palace کا موقف ختم ہوگیا۔ (سطور بالا میں راقم الحروف نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ محل 3000 سال قدیم ہے لیکن یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے 1600 سال پہلے اس کی تعمیر عمل میں آئی تھی۔ خلیفہ ہارون رشیدؒ کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے امین کو ان کا جانشین بنایا گیا جو زبیدہ خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ خلیفہ ہارون رشیدؒ کی بیوی زبیدہ خاتون کا تعلق بنی عباس سے تھا اور وہ ہارون رشیدؒ کی چچازاد بہن بھی تھیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں زبیدہ خاتون کی غیرمعمولی خدمات رہیں۔ دوسری طرف ہارون رشید ؒ کی ایک اور اہلیہ جو ایرانی کنیز تھیں، اُن کے بطن سے مامون رشید پیدا ہوئے۔ اُن کے بارے میں تاریخ میں آیا ہے کہ وہ انتہائی تعلیم یافتہ، چالاک، زیرک اور فطین تھے (حضرت علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت نے مامون رشید پر ایک کتاب ’’المامون‘‘ لکھی ہے)۔جب ہارون رشیدؒ بوڑھے ہوئے تب انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب ’’المامون‘‘ کے مطابق کرمان شاہ ،نہاوند ، قم ، کاشان ، اصفہان ،فارس ، کرمان ، رے ، قومس، طبرستان ، خراساں ، زابل، کابل ، ہندوستان ، ماورالنہر ، ترکستان الغرض وسطی ایشیا مامون رشید کے حوالے کردیا اور اس کا پائے تخت طوس تھا۔ دوسری جانب بغداد، واسط ، بصرہ ، کوفہ ، شامات ، سوادِ عراق ، موصل ، جزیرہ حجاز ، مصر اور بغداد کی انتہائے حدود اپنے بیٹے مامین کو عطا کردیئے۔ تاریخ میں یہ بھی آیا کہ خلیفہ ہارون رشیدؒ اپنے دونوں بیٹوں اور اہل خانہ کے ہمراہ حج کیلئے جاتے ہیںاور وہاں خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دونوں بیٹوں سے یہ عہد کرواتے ہیں کہ متحد رہو گے، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کروگے ۔ بعد میں کیا ہوا وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ مامون نے اپنے دارالحکومت کو طوس کی بجائے مشہد سے 200 کیلومیٹر دور ایک مقام کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ وسطی ایشیا پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔ قافلہ مدینہ ، بصرہ، قازقستان، نیشا پور وغیرہ سے ہوتے ہوئے ثناء آباد (مشہد) پہنچا ۔ وہاں پہنچنے کے بعد حضرت امام رضاؑ نے اپنے اہل خانہ اور اپنے چاہنے والوں سے اِرشاد فرمایا: ’’مجھے زہر دے کر شہید کیا جائے گا اور میں اسی گنبد میں دفن کیا جاؤں گا۔‘‘ اس سے پہلے کہا جاتا ہے کہ آپ نے مرگے میں تین سال قیام کیا اور پھر آپ کو طوس کے دورہ کے بہانے سے مشہد لایا گیا اور وہاں انگور میں زہر دے دیا گیا۔ آپ وہیں شہید ہوگئے اور گنبد کے نیچے ہی آپ مدفون ہیں۔ اس طرح ہارون رشیدؒ کی قبر آپ کے پائنتی میں آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی قبر 2 میٹر گہری کھودی گئی۔ اس طرح حضرت امام رضا کی مزار بنائی گئی اور آہستہ آہستہ وہاں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ حضرت امام رضا غریبوں و ضرورت مندوں کیلئے لنگر کا اہتمام کیا کرتے تھے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 1200 سال سے وہ لنگر قائم ہے۔ (واضح رہے کہ ایران ’’تصوف‘‘ کا مرکز ہوا کرتا تھا اور زیادہ تر سلسلے حضرت امام رضا تک پہنچتے ہیں)۔ لنگر میں روزانہ 20,000 زائرین کو دوپہر کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور یومیہ ایک لاکھ زائرین کو روضہ حضرت امام رضاؑ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کے مشہد کی آبادی 40 تا 45 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ شہر کافی خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ روضہ مبارک اور اس سے متصل حصوں میں جو شیشوں کا کام کروایا گیا ہے، وہ مختلف ادوار میں مختلف بادشاہوں نے کروایا۔ حرم امام رضا 20 لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔ زائرین کیلئے زیرزمین روڈ بنائی گئی ہیں۔ کم از کم 6 شاہراہیں، حضرت امام کے روضہ سے متصل ہیں۔ حرم شریف 14 صحن اور 28 رواق (چھت کے حامل ہالس) پر مشتمل ہے جہاں نورانی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ وہاں 5,000 خادمین خدمات انجام دیتے ہیں جو آٹھ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ خادمین رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں 8 گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیتیں ،مفکرین و دانشور متمول تاجرین فوجی جرنیلس ، وزراء نائب وزراء بیورو کریٹس وغیرہ شامل ہیں اور حرم کی خدمت کو اپنی خوش نصیبی مانتے ہیں ، یہ خادمین بطور خاص ایران بھر سے آکر خدمات انجام دیتے ہیں۔ حضرت امام رضا کے روضہ میں زائرین کیلئے پانی کا خصوصی انتظام ہے اور صحن میں جابجا پیاسے زائرین اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ وہاں چشمہ کا پانی تقریباً 50 کیلومیٹر سے پہنچایا جاتا ہے اور پانی بہت میٹھا ہوتا ہے۔ روضہ کے احاطہ میں ہی حضرت امام رضا کا کتب خانہ ہے جس کا شمار دنیا کے قدیم ترین کتب خانوں میں ہوتا ہے ، یہ کم از کم 1100 سال قدیم کتب خانہ ہے جبکہ روم میں وٹیکن کا کتب خانہ 800 تا 900 سال پرانا ہے۔ حضرت امام کے کتب خانہ میں عربی اور فارسی کے نادر و نایاب 2 لاکھ قلمی نسخے و مخطوطات پائے جاتے ہیں۔ قرآن میوزیم کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں قرآن مجید کے 14,000 قلمی نسخے موجود ہیں۔ یہ وہ نسخے ہیں جو اکثر سلاطین بطور ِہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ قرآن میوزیم میں آئمہ اطہار حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت امام رضاؑ کے قلمی نسخے جو ہرن کی جلد پر لکھے گئے ہیں، انہیں دیکھ کر قلوب و اذہان کو سکون میسر ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ کے دست مبارک ہرن کی کھال پر لکھے گئے قرآن حکیم کا نسخہ بتایا جاتا ہے کہ شاہ عباس صفوی نے بطورِ ہدیہ پیش کیا تھا۔بانی شہر حیدرآباد سلطان محمد قلی قطب شاہ کے والد ابراہیم قلی قطب شاہ کی حرم امام رضاؑ کیلئے بطور ہدیہ 1562ء میں پیش کیا گیا قرآن مجید کا نسخہ بھی اسی میوزیم میں موجود ہے۔ انہوں نے قرآن حکیم کے اس نسخہ کو ایک خاص ایلچی کے ذریعہ بھیجا تھا اور اس کے کاتب و خطاط میر عبدالقادر حسینی شیرازی ہیں۔ قرآن مجید کے اس نسخہ کو مکمل طور پر آبِ زر سے لکھا گیا۔ اس کی خطاطی بھی بے نظیر ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ابراہیم قطب شاہ کے دور میں ہی تالیکوٹ کی جنگ 1555ء میں ہوئی تھی جس میں قطب شاہی عادل شاہی اور نظام شاہی بادشاہوں نے متحدہ طور پر وجئے نگرم کے راجہ کو صرف چار گھنٹوں میں شکست دی تھی اور تالیکوٹ جنگ کے بعد ابراہیم سلطان قطب شاہ نے 5 کلو آب زر سے لکھی گئی قرآن حکیم ، حرم امام رضاؑ روانہ کیا۔ انہوں نے اپنی پوری سلطنت کو بھی جس میں موجودہ آندھرا پردیش، تلنگانہ، ٹاملناڈو کا شمالی علاقہ کرناٹک کا شمالی علاقہ، اوڈیشہ کا جنوبی علاقہ شامل تھا۔ حرم امام رضا کیلئے وقف کردیا تھا۔قلمی نسخوں کے لحاظ سے حرم امام رضاؑ کے قرآن میوزیم کو دنیا کا سب سے بڑا قرآن میوزیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس میوزیم میں ہم نے قرآن مجید کا وہ نسخہ بھی دیکھا جو ’’خط بابری‘‘ (مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر نے اس خط کی ایجاد کی تھی، اس لئے اسے ’’خط بابری‘‘ کہا جاتا ہے۔) میں لکھا گیا ہے ۔ قرآن مجید کا یہ نسخہ شاہ سلطان حسین صفوی نے بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ قرآن میوزیم میں 5 تفاسیر کی قرآن مجید کا نسخہ بھی ہے جس میں اہل سنت اور اہل تشیع مفسرین کی تفاسیر موجود ہے۔ اس کے علاوہ محمود غزنوی اور مسعود غزنوی کے وزیراعظم کی جانب سے پیش کردہ فلمی نسخہ بھی موجود ہے۔ ساتھ ہی لکڑی اور ہرن کی جلد وغیرہ پر لکھی گئی قرآن پاک کے نسخے بھی زائرین کیلئے تازگی روح کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک حرم امام رضا کی لائبریری کا سوال ہے، اس میں عربی، فارسی، انگریزی، اُردو اور دیگر زبانوں کی 40 لاکھ کتابیں موجود ہیں۔ صحافیوں کے اسی دورہ میں ڈاکٹر اشرف علی زیدی اور ڈاکٹر حیدر رضا ضابط نے غیرمعمولی تعاون کیا اور ایران کے اہم مقامات و اہم شخصیتوں سے واقف کروانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ قرآن میوزیم میں ہمیں اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب حیدرآباد کا مٹھاس سے بھرا لہجہ ہماری سماعت سے ٹکرایا۔ دراصل اس تاریخی میوزیم کے کیوریٹر محمد حسین یزدی نژاد ہیں جن کی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی اور وہ گرامر اسکول ، عابڈس کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہاں! ہم نے ابتدائی سطور میں ہی بتایا تھا کہ ایران میں ایسی عظیم شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے عالمگیر سطح پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، چاہے وہ شریعت طریقت، حقیقت اور معرفت ہو یا پھر علم فلکیات، علم الارضیات ، ریاضی ، طب، ادب ، منطق غرض زندگی کے ہر شعبہ میں ایک عالم کی رہنمائی کی۔ عظیم شخصیتوں میں سلسلہ قادریہ کے بانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی پیران پیر غوث الاعظم دستگیر ؒ آپؒ کی والد ماجد والدہ ماجدہ، نانا ، دادا بھی ایران میں آرام فرما ہیں۔ شہر رے میں حضرت پیران پیرؒ کے جد شاہ عبدالعظیمؒ بھی آرام فرما ہیں۔ ہندالولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا بھی ایران کے شہر چشت سے تعلق ہے۔ یہ علاقہ فی الوقت افغانستان میں شامل کردیا گیا ہے۔ حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ نیشاپور میں آرام فرما ہیں۔ اسی طرح صحاستہ کے آئمہ بشمول حضرت امام ابوعبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری کی بخارا خراسان میں ولادت ہوئی، اب یہ موجودہ ازبیکستان میں واقع ہے۔ امام مسلمؒ ؍ مسلم بن حجاج ؒکی ولادت نیشا پور میں ہوئی اور آپؒ نے وہیں وفات پائی۔ امام ابو داؤدؒ سجستانی، احمد بن شعیب بن یحییٰ بن سنان بن دینار کی ولادت باسعادت بھی ایران ہی میں ہوئی۔ امام ابوعیسیٰ محمد ترمذی کی ولادت بھی ایران کے ترمذی میں ہوئی۔ امام غزالیؒ ؒ، جابر بن حیان، ابن سینا، حافظ شیرازی، شیخ سعدیؒ ، حضرت بایزید بسطامی، فردوس، عمر خیام بھی دنیا کو سرزمین ایران کی دین ہے۔ مضمون چونکہ طوالت اختیار کرتا جارہا ہے ، اس لئے آئندہ قسط میں آپ کو ایران میں پیدا ہوئیں اور آرام فرمارہیں عظیم شخصیتوں کے بارے میں تفصیلات سے واقف کروانے کی کوشش کروں گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایران کی جملہ آباد 8 کروڑ ہے جس میں ایک کروڑ سُنّی مسلمان ہیں، عیسائیوں کی آبادی 3 لاکھ، یہودیوں کی آبادی 50 ہزار، بہائی مذہب کے 700 اور مجوسیوں کی آبادی 4 تا 5 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔