دور جدید میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں

   

مہندروید
دنیا میں عجیب و غریب اور حیران کن واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسی چیزوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ حیران کن چیزیں یا واقعات رُکنے والے یا ختم ہونے والے نہیں۔ آپ کو یاد دلادیں کہ ہندوستان نے اپنا پہلا بیرونی فضائی اڈہ تاجکستان میں قائم کیا تھا جس کا مقصد پڑوس کے افغانستان میں حکمرانی کررہے طالبان کا مقابلہ کیا جاسکے لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہی طالبان ہندوستان سے درخواست کررہے ہیں کہ کابل کے باہر بگرام فضائی اڈے سے آپریشن کرے۔ طالبان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات انتہائی تلخ رُخ اختیار کرچکے تھے نتیجہ میں ہندوستانی سفارتی عملہ کو سب کچھ چھوڑ کر افغانستان سے رخت سفر باندھ کر ہندوستان واپس ہونا پڑا تھا۔ کسی کو بھی اس بات کی اُمید اور توقع نہیں تھی کہ طالبان اور ہندوستان ایک دوسرے سے قربت اختیار کریں گے۔ دونوں کی دوستی ہوگی اور ہندوستان طالبان کے ساتھ تعاون و اشتراک باالفاظ دیگر مدد کے لئے تیار ہوجائے گا۔ گزشتہ ماہ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ملا امیر خاں متقی نے ہندوستان کا تاریخی دورہ کیا اور اس دورہ میں اُنھوں نے بگرام فضائی اڈہ سے کام کرنے کی ہندوستان کو دعوت دی۔ ذرائع کے حوالے سے یہ انکشاف منظر عام پر آیا جس میں بتایا گیا کہ افغانستان نے دوسرے ملکوں کی فضائیہ پر ہندوستانی فضائیہ (انڈین ایرفورس) کو ترجیح دی۔ طالبان نے ہندوستان کے مقابل امریکہ، چین، روس اور پاکستان کو نظرانداز کردیا۔ ہاں اس سلسلہ میں ہندوستان یا افغانستان کی طالبان حکومتوں یا ان کے فوجی حکام کی جانب سے کسی قسم کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی لیکن یہ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ انڈین ایرفورس نے اپنے سکھوئی لڑاکا طیارے بگرام فضائی اڈہ میں اُتاردیئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی پیشرفت ہے جس کے خطہ کی سلامتی، افغانستان کے استحکام اور عالمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاہم ابھی اس بارے میں کوئی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔ یہ باتیں اُس وقت شروع ہوئیں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بگرام فضائی اڈہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے اس معاملہ میں صرف خواہش ہی ظاہر نہیں کی بلکہ طالبان کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ جہاں تک بگرام فضائی اڈہ کا سوال ہے اسے دنیا کا سب سے بڑا فضائی اڈہ سمجھا جاتا ہے جس کا امریکہ نے جولائی 2021ء میں تخلیہ کیا تھا کیوں کہ طالبان اقتدار پر واپس ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے پرزور انداز میں دھمکی دی تھی کہ اگر طالبان بگرام فضائی اڈہ کو دوبارہ امریکہ کے حوالے نہیں کرتے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، طالبان کے لئے بہت بُرا ہوگا۔ آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ روس کی قیادت میں ہوئے ماسکو فارمیٹ کے مذاکرات میں ہندوستان، روس، چین، پاکستان اور ایران نے بگرام فضائی اڈہ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور ان ملکوں نے مشترکہ طور پر یہ کہتے ہوئے امریکی منصوبوں کی مخالفت کی تھی کہ اس سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔ بہرحال اب بگرام فضائی اڈہ ایک نئے گراؤنڈ زیرو کی حیثیت سے اُبھر سکتا ہے کیوں کہ افغانستان ایک بار پھر ان مختلف طاقتوں (ملکوں) کے درمیان مقابلہ کا میدان بن گیا ہے جو اسے جغرافیائی محل وقوع کو جنوب مغرب اور وسطی ایشیاء کا انٹر سیکشن ہونے کے باعث دفاعی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ابتدائی طور پر آپ کو بتایا کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی حیرت ناک واقعہ پیش آتا یا غیر متوقع تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے چنانچہ ہندوستان ۔ افغانستان طالبان کی نئی دوستی، بگرام فضائی اڈہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش اور ہندوستان کے بشمول دوسرے ملکوں کی جانب سے اس کی مخالفت کو سمجھنا ضروری ہے۔ گزشتہ صدی کے آغاز میں ہندوستان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے 130 کیلو میٹر جنوب مشرق میں فرخور کے مقام پر ایک فوجی فضائی اڈہ قائم کیا تھا اور وہ اڈہ طالبان کے خلاف تھا جو افغانستان پر قابض ہوکر اقتدار حاصل کرچکے تھے۔ ایسے میں ہندوستان طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی بھرپور مدد کررہا تھا اور شمالی اتحاد کے زخمی جنگجوؤں کا علاج ہندوستانی فضائیہ کے زیرانتظام ہاسپٹل میں ہوا کرتا تھا۔ شمالی اتحاد کے لیڈر احمد شاہ مسعود تھے جنھیں 9/11 واقعات کے صرف دو دن قبل خودکش حملہ میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ عرب صحافیوں کے بھیس میں آئے خودکش بمباروں نے احمد شاہ مسعود کو قتل کیا تھا، اُن لوگوں نے انٹرویو کے نام پر احمد شاہ مسعود کا صفایا کردیا۔ ہندوستان نے اِس فضائی اڈہ کو 2007ء میں پوری طرح فعال کردیا تھا اور وہاں MG-29 طیارے تعینات کئے تھے تاہم 2022ء میں تاجکستان کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے ساتھ اس فضائی اڈہ کو بھی بند کردیا گیا۔ اب جبکہ افغانستان اور اس کے اطراف و اکناف سیاسی مساوات تبدیل ہورہے ہیں، ہندوستان کا طالبان حکومت کے ساتھ بگرام میں دوبارہ شراکت داری کی سمت آگے بڑھنا علاقہ میں اور خود ہندوستان اور طالبان دوستی کے ایک نئے باب کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔ غیر فوجی محاذ پر ہندوستان نے افغانستان کے کابل دریا پر ایک ڈیم تعمیر کرنے کی پیشکش کی ہے جو پاکستان میں بہتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان نے پلوامہ دہشت گردانہ حملہ کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا تھا اور طویل مدت میں ہندوستان کا یہ اقدام پاکستان کے بڑے آبی وسائل کو متاثر کرنے والا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف فی الوقت پاکستان، افغان حکمراں طالبان سے شدید ناراض ہے۔ وہی طالبان حکومت جس کے قیام میں پاکستان نے بھرپور مدد کی تھی، پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حالیہ جو واقعات پیش آرہے ہیں خاص طور پر وہاں شدید جھڑپیں ہورہی ہیں جس پر یہ قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ شائد پاکستان جان بوجھ کر حالات کو ایسے موڑ پر لے جارہا ہے جس سے افغانستان میں امریکہ کی واپسی کا جواز پیدا ہوسکے۔ اس تاثر کو اس وقت زبردست تقویت ملتی ہے جب ہم امریکہ پاکستان بڑھتی قربت خاص طور پر اسٹراٹیجک اتحاد کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ یہ انسداد دہشت گردی تعاون ہے حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور قطر کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک غیر مستحکم جنگ بندی نافذ کی گئی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان ۔ افغانستان سرحد ہمیشہ ایک جنگی محاذ بنی رہتی ہے۔ ایک اور اہم سوال ہے کہ آخر کیوں بگرام فضائی اڈہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں اس قدر زیادہ اور شدت کے ساتھ دلچسپی لے رہا ہے؟ امریکہ اصل میں خطہ میں روس کی پیشقدمی روکنا چاہتا ہے اس کے لئے وہ بگرام فضائی اڈہ کے ذریعہ وسطی ایشیاء کے خطے میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکی واپسی اتنی آسان نہیں جیسا امریکہ سمجھ رہا ہے۔ اگر امریکہ دوبارہ خود کو افغانستان میں ایک طویل مدت کے لئے اُلجھائے رکھنا چاہتا ہے جیسا کہ سال 2001ء میں ہوا تھا تو اسے سیاسی، معاشی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے ناقابل تصور نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ یوکرین جنگ بھی ٹرمپ ختم نہیں کرواسکے۔ امریکہ کے اِس اقدام کا راست اور سب سے زیادہ فائدہ روس اور چین کو ہوگا۔یہ بھی امکانات پائے جاتے ہیں کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی فوج کو دوبارہ افغانستان میں اُتارتے ہیں تو ان سے وہی غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں جن کا ارتکاب ماضی میں جارج بش جونیر، بارک اوباما اور جوبائیڈن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا تھا۔ امریکہ افغانستان میں ایک طرح سے پھنس گیا تھا اسے وہاں سے ذلیل و خوار ہوکر نکلنا پڑا۔ ویسے بھی طالبان کو اچھے طالبان اور بُرے طالبان میں تقسیم کرنا امریکہ کا ریکارڈ رہا ہے یعنی وہ طالبان کو تائید کرنے والے اور مخالفت (عداوت) کرنے والے طالبان میں تقسیم کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ بھی امریکہ کابل حکومت اور قندھار میں موجود ان کے سخت گیر نظریاتی رہنماؤں میں اختلافات پیدا کرکے انھیں تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ افغانستان پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں برخواست کرنے اور امریکی بینکوں میں پڑے ہوئے 9 ارب ڈالرس کی کثیر رقم جاری کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے معاملت بھی کرسکتا ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار مستقبل پر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے ارد گرد جو ممالک ہیں ان میں امریکہ کا واحد اتحادی پاکستان ہوگا حالانکہ اس نے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیلا ہے اور 20 برسوں تک طالبان کو پناہ دی ہے، انھیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔ اس کے علاوہ جونیر بش کو 9/11 کے بعد جو امریکہ میں اور عالمی سطح پر تائید و حمایت حاصل ہوئی وہ ٹرمپ کو حاصل نہیں ہے۔ افغانستان کی اپنی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ کوئی اس ملک پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکا۔ سویت یونین افغانستان پر کنٹرول کے لئے 1980ء کے دہے تک لڑتا رہا۔ اسے افغانستان سے دستبردار ہونا پڑا جو عملاً سویت یونین کے بکھر جانے کا باعث بنا۔ 9/11 کے بعد امریکہ اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑی لیکن 19 برسوں کے بعد تقریباً 52.3 کھرب ڈالرس خرچ کرنے اور 2324 فوجیوں کو کھونے کے بعد امریکہ بھی افغانستان سے تخلیہ پر مجبور ہوا۔ اگست 2021ء میں طالبان اقتدار پر واپس ہوئے جس کا تقابل ویتنام میں امریکہ کی شکست سے کیا گیا۔ تمام طاقتوں نے افغان عوام سے نمٹنے میں سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ خاص طور پر افغانستان کے پہاڑی علاقے اور پہاڑی زمینیں دشمن کے لئے قبرستان بن جاتی ہیں اس لئے افغانستان کو حکومتوں اور حکمرانوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ ملا امیر خاں متقی نے اس کا حوالہ ہندوستان کے دورہ پر بھی دیا۔ افغان حکومت خود کو تسلیم کرنے عالمی برادری پر زور دے رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہا بھارت میں اپنے تمام بیٹوں سے محروم ہونے کے بعد ہستیناپور کی رانی گندھاری نے بددعا دی تھی کہ اس کے بھائی شکونی کی سلطنت جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موجودہ افغانستان میں تھی، ہمیشہ جنگ و جدال میں ڈوبا رہے اور شائد گندھاری کی وہ بددعا قبول ہوئی۔