پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
اکتوبر 2024 میں امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی ایک بہترین انسان ہیں اور ایک حتمی قاتل جبکہ نریندر مودی نے جب فروری 2025 میں امریکہ کا دورہ کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کا ہندوستان کو ایک بار پھر عظیم تر بنانے کا نظریہ ہے ۔ میک انڈیا گریٹ اگین MIGA ۔ جب ہندوستان اور امریکہ ایک ساتھ کام کرتے ہیں تو MAGA اور اس کے ساتھ MIGA جڑنے سے یہ MEGA ہوجاتا ہے جسے ہم دونوں ممالک کی خوشحالی کیلئے ایک میگا پراجکٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ دونوں قائدین ایسے ہیں جنہوں نے ان لمحات میں کچھ اس طرح سے دوستی کی باتیں کیں جیسے کہ اسکول میں پڑھنے والے دو دوستوں کی ہوتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ دوستی کہاں ہے ؟ میرا یہ ماننا ہے کہ مودی اور ٹرمپ نے 7 مئی 2025 سے اب تک کوئی بات چیت نہیں کی ہے ۔ صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 9 مئی کو نریندر مودی سے بات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ جنگ بندی کردیں۔ دوسری طرف ٹرمپ نے اس بات چیت کا اپنے ٹرتھ سوشل پوسٹ پر کوئی تذکرہ کئے بغیر کہا کہ امریکہ کی ثالثی میں طویل بات چیت کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہند و پاک نے فوری جنگ بندی کیلئے آمادگی ظاہر کی ہے ۔ یہ اعلان 10 مئی کو 5-25 منٹ پر کیا گیا جس سے ہندوستانی عوام کو حقیقت سمجھنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ کچھ بھی ہو ٹرمپ تو جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ جنگ بندی کیلئے رصامندی 3.35 پر ہوئی اور اس کا اعلان 5 بجے کیا گیا یعنی 10 مئی 2025 کی شام 5 بجے جبکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے اور انہوں نے 6 بجے کے قریب جنگ بندی کے متعلق بتانا شروع کیا ۔ میرے خیال میں یہ جاننا بیحد اہم ہے کہ امریکہ نے ہند و پاک جنگ بندی میں ثالثی کس طرح کی اور اس کی کئی وجوہات ہیں ۔
چین کا پہلو
امریکی نائب صدر وینس نے 9 مئی کی شام کو نریندر مودی کو ایک خاص اطلاع دی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ہندوستان کے خلاف نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس میں چین کے رول کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر دفاع دونوں نے ہی ایک سر ہوکر یہ بات کہی کہ ہندوستان نیوکلیئر ہتھیاروں کی دھمکی کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ جب اس نوعیت کی کوئی دھمکی سرے سے دی ہی نہیں گئی تو نیوکلیئر دھمکی یا بلیک میل کی اصطلاح کیوں استعمال کی جارہی ہے ۔
جہاں تک چین کا سوال ہے تو چین نے پاکستان کو اپنے J-10 لڑاکا طیارے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی ساتھ چین نے میزائیلس PL-15 کو بھی استعمال کرنے کی اجازت تھی ، تاہم ان کا استعمال پاکستان کے ایر فورس کمانڈ میں چینی کمانڈرس کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا ۔ دو ویب سائٹس انڈیا ڈاٹ کام اور ڈیفنس ایکس ڈاٹ کام نے یہ رپورٹ بھی جاری کی کہ پاکستانی فوج کے ایک کرنل عہدہ کے حامل عہدیداروں کو چین کے PLA کے مغربی اور جنوبی تھیٹر کمانڈس میں اور جوائنٹ اسٹاف کمانڈ برائے سنٹرل ملٹری کمیشن میں تعینات کیا گیا تھا جبکہ چین کی جانب سے میدان جنگ سے متعلق تمام معلومات بالکل عیاں تھی۔ دوسری طرف پاکستان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ہندوستان کے S-400 ایر ڈیفنس کو ناکارہ کرنے چینی ساختہ ہائپر سونک میزائلس کا استعمال کیا ۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژہنوا نے اسے جنگ کے شعبہ میں ایک نئی صبح کے طلوع ہونے سے تعبیر کیا تھا ۔ اب ذرا چار روزہ جنگ اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں ۔ 7 مئی کو کسی بھی ہندوستانی فوجی نے لائن آف کنٹرول پار نہیں کی اور کوئی بھی جنگی طیارہ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا جبکہ استعمال میں لائے گئے ہتھیاروں میں صرف میزائلس اور مسلح ڈرونز تھے ۔ بہرحال 7 تا 9 مئی کے درمیان ہندوستان نے پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا اور یہی وہ لمحہ تھا جب ٹرمپ ثالثی کے میدان میں کود پڑے اور اب انہوں نے مودی جیسے بہترین انسان کو ایک طرف کرتے ہوئے ان پر جنگ بندی کیلئے زور ڈالنا شروع کردیا جبکہ ہندوستان نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن ٹرمپ نے ایک نہ سنی ، اس کے بعد سعودی عرب اور دورۂ قطر میں ٹرمپ نے وا ضح طور پر یہ بیانات دیئے کہ ہند و پاک جنگ بندی میں انہوں نے ثالثی کا کردار ادا کیا کیونکہ انہوں نے جنگ بندی نہ کرنے کی صورت میں بقول ٹرمپ ہندوستان سے کوئی تجارت نہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی ۔
سودے باز ٹرمپ
یہ بات اب تک واضح ہوگئی تھی کہ ٹرمپ کے تجارتی ذہن نے جنگ بندی میں اہم رول ادا کیا ۔ ٹرمپ کی کرپٹو کرنسی فرم کا نام ورلڈ لبرٹی فینانشیل (WLF) بھی ہے جس نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کئے اور پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی اور ساتھ ہی فوجی سربراہ سے بھی ملاقات کی اور 26 اپریل کو ہی کو پاکستان کی کرپٹو کونسل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا اور یہ معاہدہ پہلگام حملوں کے صرف چار دن بعد کیا گیا تھا ۔ جنگ نے جیسے ہی شدت پکڑی ٹرمپ اپنی لاتعلقی والے مزاج پر لوٹ آئے اور اس کے بعد ٹرمپ فوری حرکت میں آگئے اور جنگ بندی کے ثالث بن گئے جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے ۔ مودی سے دوستی کے باوجود امریکہ نے ہندوستان کے تارکین وطن کو امریکہ سے ہتھکڑیاں اور زنجیریں پہنا کر واپس بھیجا جبکہ اس پر مودی نے بطور احتجاج ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ ہندوستان سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر بے تحاشہ ٹیرف عائد کیا گیا ۔ مودی خاموش رہے۔ امریکہ نے پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے دیئے جانے والے قرض کی حمایت کی ۔ مودی خاموش، ہارورڈ یونیورسٹی سے بیرونی طلبہ بشمول ہندوستانی طلبہ کو بے دخل کیا گیا ، مودی خاموش، طلبہ کے انٹرویوز روک دیئے گئے ۔ مودی خاموش، اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں کی دوستی ٹوٹنے والی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اب امریکی صدر سے کوئی سودے بازی نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ تو ایک ایسی مالدار کمپنی WLF فیملی سے سودے بازی کر رہے ہیں جس نے پاکستان کے ساتھ ایک سودے کو قطعیت دی ہے ۔ مودی ایک ایسے شخص سے بلکہ تاجر کہنا بہتر ہوگا ، سودے بازی کر رہے ہیں جو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کچھ بھی کرسکتا ہے چاہے وہ ہتھیار ہوں یا دیگر وسائل اور یہی ہے POTUS یعنی President of the United States کا درجہ۔ہندوستان میں آپریشن سندور کو عوام کی حمایت ملنے کے باوجود نریندر مودی کا قد اس وقت ڈونالڈ ٹرمپ کے سامنے بہت چھوٹا ہے۔ پاکستان بھی کوئی معمولی ملک نہیں رہا جسے ایک دھکا دیا اور قبضہ کرلیا ۔ پاکستان کو چین کی فوجی اور امریکہ کی سفارتی حمایت حاصل ہے ۔ ہندوستان کو اپنی فوج کی حکمت عملی پر دوبارہ غور و خوض کرنا ہوگا اور امریکہ کے لئے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔