’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ …مودی کا امتحان
یکساں سیول کوڈ ۔قبائل کا خوف… مسلمان بے اثر
رشیدالدین
’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ وزیراعظم نریندر مودی کو اس نعرہ کے اثر انداز ہونے کیلئے 4 سال انتظار کرنا پڑا۔ ہندوستان میں ’’اب کی بار مودی سرکاری‘‘ کے نعرہ کے سہارے مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والے نریندر مودی کو امریکی صدارتی الیکشن میں اپنے دوست کی کامیابی دیکھنے کیلئے چار سال انتظار کرنا پڑا۔ دراصل مودی کے اس نعرہ کا جادو امریکہ میں نہیں چل سکا۔ جس الیکشن میں مودی نے امریکہ جاکر ٹرمپ کے حق میں مہم چلائی تھی، اس میں ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اس مرتبہ نریندر مودی کی تائید حاصل نہیں کی اور نہ ہی انہیں ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ لگانے کے لئے امریکہ مدعو کیا ۔ مودی کی تائید کے بغیر ٹرمپ کو ہندوستانی نژاد امریکی شہریوں کے ووٹ حاصل ہوئے اور وہ دوسری مرتبہ صدارت پر فائز ہوئے ۔ مودی نے ٹرمپ کے ساتھ دوستی کا اظہار کچھ اس جذباتی اور والہانہ انداز میں کیا تھا جیسے دونوں لنگوٹی یار ہوں۔ ٹرمپ کو اپنا اور ہندوستان کا سچا دوست قرار دینے کے باوجود ہندوستان کو ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے کوئی خاص فائدہ نہیں ملا۔ اب جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ چار سال کے وقفہ کے بعد دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو مودی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گودی میڈیا اور بی جے پی کا سوشیل سیل ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کے نعرہ کو وائرل کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے مودی نے دوبارہ مہم چلائی ہو۔ ٹرمپ بھلے ہی توہم پرست نہ ہوں لیکن نقصان اور فائدہ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، لہذا انتخابی مہم سے مودی کو دور رکھا ۔ مودی کے ساتھ پہلا تجربہ ہی مہنگا ثابت ہوا اور وہ ہار گئے تھے۔ گزشتہ چار برسوں میں بہت کچھ بدل گیا اور مودی کے بارے میں ٹرمپ کا جذبہ پہلے کی طرح گرمجوشی کا نہیں ہے۔ کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے مودی نے ٹرمپ کو فون کیا اور اپنی پرانی تصاویر کو سوشیل میڈیا میں شیئر کیا لیکن ٹرمپ نے مودی کے فون کال کا ذکر کیا اور نہ ہی اپنے پہلے خطاب میں ہندوستان کا نام لیا ۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ ٹرمپ نے دونوں مرتبہ خواتین کو شکست دی۔ پہلی مرتبہ ہلاری کلنٹن اور دوسری مرتبہ کملا ہیرس کو ہراکر صدارتی عہدہ پر فائز ہوئے ۔ ٹرمپ کو جوبائیڈن نے ہرایا تھا۔ خواتین کا مقابلہ ٹرمپ کیلئے نیک شگون ثابت ہوا۔ کوئی مرد اگر مقابلہ میں ہوتا تو صورتحال شائد مختلف ہوتی۔ نتائج سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ حقوق نسواں اور جنسی مساوات کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ میں خواتین کو قیادت اور بالخصوص ملک کی صدارت کا اہل تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہلاری کلنٹن اور کملا ہیرس کی صلاحیتوں اور تجربہ کے باوجود امریکی معاشرہ مرد زیر اثر ثابت ہوا ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین نے ملک پر حکمرانی کی لیکن امریکہ کی تاریخ کے 47 صدور میں ایک بھی خاتون شامل نہیں ہیں۔ مودی اور ٹرمپ کے سیاسی سفر میں خواتین کا عنصر منفرد انداز کا ہے ۔ ٹرمپ نے خواتین کو ہرایا جبکہ مودی نے گھر والی کو ہی بے گھر کردیا۔ ٹرمپ کی کامیابی پر نریندر مودی بھلے ہی جذبات سے بے قابو دیکھے گئے لیکن مبصرین کے مطابق اب صورتحال بدل چکی ہے اور چار سال قبل جو حالات تھے ، وہ آج ہندوستان کے حق میں نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا روس اور چین کی طرف جھکاؤ کچھ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ حالیہ عرصہ میں روس سے ہندوستان کی قربت میں اضافہ ہوا اور روس کی مدد سے چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرلئے گئے۔ سرحد پر بھی چین سے کشیدگی میں کمی آئی ہے ۔ روس اور چین جب ہندوستان کے قریب ہوجائیں تو امریکہ کے مفادات کو ٹھیس پہنچنا یقینی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ عالمی فورمس میں ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہوپائے گا؟ پاکستان سے چین کو دور کرنے روس کے سہارے سرحدوں پر کشیدگی میں کمی کی گئی اور چین نے ہندوستان کے علاقہ پر اپنے قبضہ سے جزوی طور پر دستبرداری اختیار کرلی ہے ۔ چین کے لئے ہندوستان ایک منافع بخش منڈی کی طرح ہے۔ جب ہندوستان چینی اشیاء کی مارکٹ میں تبدیل ہوجائے تو امریکی معاشی مفادات پر ضرب لگنا یقینی ہے۔ مبصرین کے مطابق مودی کے دوست بھلے ہی امریکی صدر بن جائیں لیکن امریکہ سے تعلقات کو سابق کی طرح مستحکم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات ہندوستان کیلئے آزمائش کی طرح ہے۔ جب چین سے خطرہ تھا ، اس وقت امریکہ سے قربت اختیار کی گئی اور اب جبکہ ہند۔چین بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جارہا ہے تو امریکہ چاہے ٹرمپ کیوں نہ ہوں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار نہیں کرسکتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی کا موقف کیا رہے گا ۔ کیا وہ روس اور چین سے فاصلہ اختیار کریں گے ؟ نریندر مودی کے لئے امریکہ اور چین میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور وہ دو گھوڑوں کی سواری نہیں کرپائیں گے ۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی کامیابی کے باوجود معاشی سطح پر ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں استحکام آسان نہیں رہے گا ۔
مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی مہم عروج پر ہے اور دونوں ریاستوں میں کامیابی کیلئے بی جے پی اپنی حلیف پارٹیوں کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے پس منظر میں دونوں ریاستوں میں بی جے پی کیلئے حالات سازگار دکھائی نہیں دیتے لیکن بی جے پی کو ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی رائے دہندوں سے زیادہ الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ ہے۔ ہریانہ میں لمحہ آخر میں ووٹنگ مشینوں نے بی جے پی کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کردیا۔ مہاراشٹرا میں رائے دہندوں نے لوک سبھا چناؤ میں یکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کے گروپس کو مسترد کرتے ہوئے ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ بی جے پی حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر مہاراشٹرا میں دوبارہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے حالانکہ موجودہ اقتدار عوام کا عطا کردہ نہیں بلکہ اپوزیشن کو غیر مستحکم کرتے ہوئے حاصل کیا گیا ہے۔ ہر الیکشن کی طرح بی جے پی نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ اختیار کیا ہے ۔ ملک بھر میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کرنے والی بی جے پی جھارکھنڈ میں قبائلی طبقات سے خوفزدہ ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جھارکھنڈ میں انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے گا لیکن قبائل کو اس کے دائرہ کار سے باہر رکھا جائے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ قبائل کیلئے یکساں سیول کوڈ نافذ نہیں رہے گا اور وہ اپنے روایتی تہذیب کے مطابق زندگی بسر کرپائیں گے۔ یہ پہلا موقع ہے جب امیت شاہ نے یکساں سیول کوڈ سے کسی طبقہ کو مستثنی رکھنی کی بات کہی ہے۔ دوسری طرف چیف منسٹر ہیمنت سورین نے اعلان کیا کہ جھارکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ اور این آر سی دونوں پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا جواب ہیمنت سورین نے بھرپور انداز میں دیتے ہوئے انڈیا الائنس کے سیکولر موقف کی وضاحت کی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یکساں سیول کوڈ سارے ملک میں نافذ ہوگا تو پھر قبائلی طبقات کو استثنیٰ کیوں اور کس طرح دیا جائے گا ۔ ویسے بھی شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی نے قبائلی گروپس کو یکساں سیول کوڈ سے مستثنیٰ رکھنے کی بات کہی ہے ۔ امیت شاہ کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی قبائل سے خوفزدہ ہے ۔ ملک میں قبائل کی آبادی مسلمانوں سے کم ہے پھر بھی بی جے پی اور مرکزی حکومت ان سے خوفزدہ ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ مسلمان منتشر ہیں جبکہ قبائل متحد اور اپنی طاقت کے مظاہرہ کیلئے تیار ہیں ۔ یکساں سیول کوڈ کے معاملہ میں مسلمانوں سے زیادہ قبائل نے ملک کو نئی راہ دکھائی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آبادی میں اضافہ کے باوجود مسلمان ملک میں بے اثر کیوں ہیں ؟ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کا موقف رکھتے ہیں لیکن گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی حکومت کو مخالف اسلام اور مخالف مسلمان فیصلوں سے روکنے میں ناکام رہے۔ جھارکھنڈ کے قبائلی طبقات مسلمانوں سے بہتر ہیں جنہوں نے امیت شاہ کو یکساں سیول کوڈ سے استثنیٰ کا بیان دینے پر مجبور کردیا۔ ملک میں مسلمانوں کے انتشار کا بی جے پی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں شریعت کے خلاف کئی فیصلے کئے گئے لیکن مسلمان صرف بیان بازی اور برائے نام احتجاج تک محدود رہے۔ کسی بھی مرحلہ پر مسلمان اپنی طاقت کے ذریعہ حکومت پر اثر اندازہ نہیں ہوئے۔ قبائل سے مسلمانوں کو سبق لینا ہوگا۔ مسلمانوں کے مقابلہ مٹھی بھر قبائل نے بی جے پی کو خوفزدہ کردیا ہے جبکہ انتشار کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ساتھ مرکزی حکومت کھلواڑ کر رہی ہے ۔ کاش مسلمان قبائلی طبقات سے سبق سیکھیں۔ احمد فرازؔ نے کیا خوب کہا ہے ۔
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا