دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

,

   

ٹرمپ اور مودی … جہنم کا داروغہ اور ملک کا چوکیدار
پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل … شریعت پر ایک اور حملہ

رشیدالدین
جنت اور جہنم کے بارے میں دینیات میں پڑھایا جاتا ہے۔ جنت کے دربان رضوان اور جہنم کے داروغہ مالک نامی فرشتے ہیں۔ مسلمانوں کو جہنم سے زیادہ جنت کے دربان کا نام یاد ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کسی کی خواہش جنت میں داخلہ کی ہوتی ہے لہذا ہر کوئی رضوان نامی فرشتہ سے دوستی کرنا چاہے گا۔ جس مقام کو جانا نہیں ہے تو پھر اس کے داروغہ کا نام بھی کیوں یاد رکھیں گے ۔ دنیا میں شائد ہی کسی نے جنت اور جہنم کے داروغہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ خدائی کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور ان باطل خداؤں کا انجام بھی دنیا نے دیکھا لیکن جنت اور جہنم کے کیر ٹیکر ہونے پر کسی نے دعویداری پیش نہیں کی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی صورت میں جہنم کا نیا داروغہ پیدا ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کو کس نے اور کب جہنم کا داروغہ مقرر کیا یہ بحث کا موضوع ہے لیکن ٹرمپ نے جنت کو چھوڑ کر جہنم کے دروازوں پر اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسان اپنی فطرت کے مطابق پسند اور ناپسند کا انتخاب کرتا ہے۔ ٹرمپ نے جہنم کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو بے نقاب کردیا ہے ۔ اصل موضوع کی طرف چلیں تو گزشتہ دنوں ٹرمپ کا بیان دنیا بھر میں خوب وائرل ہوا جس میں انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حماس مقررہ مہلت میں اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کرے تو ’’حماس پر جہنم کے دروازے کھول دوں گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ دروازے کھولنے کی بات تو صرف داروغہ ہی کرسکتا ہے ۔ صیہونی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے مزاحمت کے ذریعہ جام شہادت نوش کرنے والے مجاہدین کے جانباز ورثاء کو ٹرمپ جہنم کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن کے مقدر میں جنت لکھ دی ہے، انہیں یہ نادان جہنم سے ڈرانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ دھمکی کے طور پر سنگین نتائج کی بات کرسکتے تھے لیکن جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کو آشکار کردیا ہے ۔ حیدرآبادی کہاوت کے مطابق اقتدار کو ’’جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے‘‘ کہ مسلمانوں کو دھمکیاں دی جانے لگیں۔ جہنم کے داروغہ سے واشنگٹن میں ہندوستان کے ’’چوکیدار‘‘ نریندر مودی کی ملاقات ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ نے نریندر مودی کے چوکیدار کے دعویٰ سے متاثر ہوکر جہنم کے دروازے کھول دینے کی بات کہی ہو۔ داروغہ اور چوکیدار دونوں کی ڈیوٹی میں یکسانیت ہوتی ہے اور یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں کی خصوصیات اور صفات میں بھی یکسانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدارت پر فائز ہوتے ہی اپنے ڈیئر فرینڈ سے ملنے کیلئے مودی امریکہ پہنچ گئے۔ امریکہ پہنچ کر ٹرمپ کو مبارکباد دینے والے نریندر مودی چوتھے عالمی رہنما ہیں۔ اسرائیل اور جاپان کے وزرائے اعظم اور شاہ اردن کے بعد نریندر مودی نے ٹرمپ کے دربار میں حاضری دی۔ ٹرمپ کی پہلی میعاد میں مودی سے گہری دوستی رہی لیکن دوسری مرتبہ صدارت پر فائز ہوتے ہی ہندوستانیوں کے دشمن ہوگئے۔ ہندوستانیوں پر امریکہ میں عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے وطن واپسی کی مہم شروع کی گئی۔ ہزاروں ہندوستانی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور ان کے سروں پر ملک بدری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اقتدار ملتے ہی ٹرمپ نے ہندوستانیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا ، اس پر مودی اپنے دوست سے احتجاج تک نہیں کرسکے۔ ہندوستانیوں کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑ یاں ڈال کر دہشت گردوں کی طرح محض ایک چیر پر بٹھاکر 12 تا 15 گھنٹوں کا سفر طئے کیا گیا۔ سیویلین ایر کرافٹ کے بجائے جنگی طیارہ میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر ہندوستان منتقل کیا گیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ طویل سفر کے دوران بھی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھولی نہیں گئیں۔ آخر ہندوستانیوں کا جرم کیا تھا کہ ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا؟ دیگر ممالک کے شہریوں کی طرح ہندوستانی بھی روزی روٹی کی تلاش میں امریکہ پہنچے تھے اور ویزا کی مدت گزرنے کے باوجود مقیم تھے جو غیر قانونی قیام کے زمرہ میں آتا ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے وقت ٹرمپ کو اپنے ’’ڈیئر فرینڈ ‘‘ کا خیال نہیں آیا۔ ٹرمپ نے ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ نعرہ کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ یوں تو امریکہ میں اور بھی ممالک کے شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں لیکن ہندوستانیوں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے جگری دوست کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ خود کو ’’وشوا گرو‘‘ کہنے والے ملک نے لفظی طور پر احتجاج تک نہیں کیا۔ نریندر مودی اور ان کی ٹیم نے ہندوستانیوں کی بے عزتی کو برداشت کرلیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سفارتی اصولوں کے مطابق امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرتے ہوئے احتجاجی نوٹ حوالے کیا جاتا۔ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران نریندر مودی نے اپنے دوست گوتم اڈانی کا دفاع کیا جن کے خلاف امریکہ میں دھوکہ دہی کے مقدمات ہیں جبکہ بے قصور ہندوستانیوں کی تائید کرنے کے بجائے ٹرمپ کے موقف کو درست قرار دیا۔ غیر قانونی شہریوں کی واپسی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن مودی کو چاہئے تھا کہ وہ غیر انسانی طریقہ کار کے خلاف ٹرمپ کو پابند کرتے۔ نریندر مودی نے رسمی طور پر تجارتی اور دفاع کے شعبہ میں تعاون کی بات کی، حالانکہ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے پس منظر میں امریکہ روانہ ہوئے تھے۔ ہندوستانیوں کو امید تھی کہ وہ ملک کی توہین پر آواز اٹھائیں گے لیکن مودی نے گوتم اڈانی کا دفاع کرتے ہوئے اپنے دیرینہ دوست کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ہندوستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بند ہوگا ؟
ٹرمپ اور مودی میں کئی خصوصیات یکساں ہیں اور دونوں غرور اور تکبر کی آخری علامت بن چکے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ممالک میں من مانی فیصلوں کے لئے مشہور ہیں اور انہیں عوام کے جذبات و احساسات کی کوئی پرواہ نہیں۔ ٹرمپ کو صرف اسرائیل کی فکر ہے اور غزہ پر ناجائزہ قبضہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلم دنیا پر مظالم ڈھانے والے امریکہ کو یوکرین میں جنگ بندی کی فکر ہے اور وہ اپنے کٹر حریف ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لئے تیار ہیں۔ جتنی دلچسپی یوکرین کی جنگ روکنے کی ہے، کاش اتنی دلچسپی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو روکنے کی ہوتی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انتہائی کم عرصہ میں امریکہ میں ٹرمپ کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی ہے ۔ دوسری طرف نریندر مودی کو منی پور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مئی 2023 سے منی پور میں تشدد کا آغاز ہوا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 250 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے۔ نریندر مودی کو منی پور کا دورہ کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا اور وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے منی پور کے حالات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا ۔ حالات جب بے قابو ہوگئے ، اس وقت چیف منسٹر بیرین سنگھ کے استعفیٰ کا ڈرامہ کرتے ہوئے صدر راج نافذ کردیا گیا۔ منی پور میں صدر راج کا نفاذ دراصل مودی حکومت کی ناکامی ہے۔ نریندر مودی کی من مانی کا تازہ مظاہرہ پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2024 کی پیشکشی ہے ۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کو دونوں ایوانوں میں پیش کرتے ہوئے مودی حکومت نے واضح کردیا ہے کہ وقف ترمیمی بل کی منظوری محض ایک رسمی کارروائی کے طور پر باقی رہ چکی ہے۔ ملک بھر میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے دورہ کے موقع پر مسلمانوں کی جانب سے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی گئی لیکن رپورٹ کی تیاری میں مسلمانوں کی رائے کو نظر انداز کردیا گیا۔ گزشتہ دس برسوں میں نریندر مودی کے انداز کارکردگی کا جائزہ لیں تو وقف ترمیمی بل کی منظوری یقینی دکھائی دے رہی ہے ۔ مودی نے جو چاہا پارلیمنٹ میں وہی کچھ ہوا۔ مسلمانوں اور شریعت کے خلاف کئی قانون وضع کئے گئے لیکن مسلمانوں کا احتجاج نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن کر رہ گیا۔ جب کبھی کوئی مخالف مسلم قانون پیش کیا جاتا ہے تو مسلمانوں کی تنظیمیں اور جماعتیں سخت احتجاج کی دھمکی دیتی ہے لیکن یہ دھمکیاں کبھی بھی عملی احتجاج میں تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیں جس کے نتیجہ میں نریندر مودی کے حوصلے پست نہیں ہوسکے۔ وقف ترمیمی بل 2024 دراصل شریعت پر حملہ ہے کیونکہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو اوقافی جائیدادوں سے محروم کردیا جائے گا ۔ وقف کا آغاز دور رسالت میں مدینہ منورہ سے ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی بھلائی کے لئے لاکھوں کروڑ کی جائیدادیں وقف کی گئی ہے جن پر اب حکومت کی نظر ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہندو مذہبی اداروں میں مسلم ملازمین کو نہیں رکھا جاسکتا تو پھر وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبر کس طرح شامل کئے جاسکتے ہیں۔ وقف ترمیمی بل کو منظوری سے روکنے کیلئے اگر مضبوط حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تو مودی حکومت کا آئندہ قدم یکساں سیول کوڈ رہے گا۔مودی کی ٹرمپ سے ملاقات پر احمد فراز کا یہ شعر نذر ہے ؎
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا