دوسروں کو مٹانے کی دھن میں آدمی خود کو یوں مٹاتا ہے

,

   

جمہوریت کی جگہ تانا شاہی… گاندھی خاندان کا قصور کیا ہے ؟
ترنگا کی مخالفت کرنے والے آج دیش بھکت

رشیدالدین

جس طرح ہر عروج کے ساتھ زوال مقدر ہوتا ہے، اسی طرح اقتدار کسی کے لئے دائمی نہیں ہوتا۔ رات کی تاریکی کے بعد صبح کا روشن ہونا قدرت کا قانون ہے، ٹھیک اسی طرح ہر مصیبت کے ساتھ آسانی اور ہر آسانی کے ساتھ مصیبت کا ہونا یقینی ہے ۔ دنیا نے فرعون ، نمرود، ہامان، شداد جیسے ظالموں کو دیکھا ہے جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ سکندر اعظم ہو کہ چنگیز خاں ، ہلاکو خاں اور ہٹلر دنیا نے ہر کسی کا زوال دیکھا ۔ ہندوستان کی آزادی کے 75 برسوں میں مرکز اور ریاستوں میں کئی ایسے حکمراں گزرے جنہیں زوال کا لفظ سننا بھی گوارا نہیں تھا لیکن ان کے زوال کو دنیا نے دیکھا۔ سلطنت میں سورج غروب نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے حکمراں بھی دنیا کیلئے عبرت اور نصیحت بن گئے ۔ دور بھلے ہی بدلتے رہے لیکن ہر دور میں ایسے حکمراں موجود رہے جو بھلے ہی خدائی کا دعویٰ نہ کریں لیکن اقتدار کو مستقل تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمان الٰہی ہے’’ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی اپنی حکمرانی اور اقتدار کو تاحیات تصور کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ زوال کے دن قریب آچکے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت کا یہی حال ہے۔ نریندر مودی خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے ہیں اور ہر کسی کو کمزور اور حقیر تصور کرنا ان کا مزاج بن چکا ہے۔ گجرات کے چیف منسٹر سے وزیراعظم تک کا سفر کن حالات میں طئے کیا گیا اس سے دنیا واقف ہے۔ بی جے پی کے جن قائدین کی سرپرستی میں نریندر مودی نے ترقی کی، انہیں وزیراعظم بنتے ہی جس طرح نظر انداز کیا گیا وہ دنیا کے سامنے مقام عبرت بن چکے ہیں۔ احسان مندی کے بجائے احسان فراموشی کے جذبہ نے ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو سیاسی منظر سے غائب کردیا۔ یہ وہی اڈوانی ہیں جنہوں نے بی جے پی کو محض دو ارکان سے اقتدار کی سرحد تک پہنچا دیا ۔ دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا جب نریندر مودی اپنے سیاسی گروہ کو بڑھ کر نمستے کرنے اور آشیرواد حاصل کرنا توکجا ان کے نمستے کا جواب تک نہیں دیا۔ وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے اور دنیا وہ منظر بھی دیکھے گی کہ اپنے وقت کے طاقتور اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی طرح مودی اور امیت شاہ کا بھی حشر ہوگا۔ عوام کو لبھانے والے وعدوں اور مذہبی منافرت کی سیاست کے ذریعہ دو مرتبہ اقتدار حاصل کرنے والی یہ جوڑی مرکز میں ہیٹ ٹرک کیلئے مخالف آوازوں کو کچل رہی ہے۔ دونوں میعادوں کا کوئی کام بھی ایسا نہیں جسے عوام کے حق میں کارنامہ قرار دیا جاسکے۔ لہذا اپوزیشن کے صفائے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ حکومت سے سوال کرنے والے جہد کاروں ، صحافیوں اور اپوزیشن قائدین کیلئے جیلوں کے دروازے کھول دئے گئے اور تحقیقاتی اداروں کے ذریعہ فرضی مقدمات دائر کئے جارہے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف دلاکر اپوزیشن کو کمزور کرنے میں مودی حکومت کامیاب ہوچکی ہے اور اب اصل نشانہ نہرو گاندھی خاندان ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی تیسری مرتبہ اقتدار کی راہ میں اہم رکاوٹ دکھائی دے رہے ہیں ، لہذا حکومت ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑچکی ہے۔مودی اور امیت شاہ یہ بھول چکے ہیں کہ اقتدار ہی نہیں زندگی بھی دائمی نہیں ہوتی۔ ہر کسی کو موت کا مزہ چکنا ہے۔ ویسے بھی یہ دونوں طبعی عمر میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے موت کی منزل قریب ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان اپنی حقیقت کو فراموش کردیتا ہے تو انتقامی کارروائیوں کا جنون سوار ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی کو اندیشہ اور خطرہ ہے کہ موجودہ کمزور موقف کے باوجود کانگریس پارٹی اقتدار میں پلٹ سکتی ہے۔ سونیا اور راہول کے خلاف جب کچھ نہیں ملا تو ایک فرضی شکایت کی بنیاد پرنیشنل ہیرالڈ کیس کو ہوا دی جارہی ہے ۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ جانچ اور پوچھ تاچھ کے نام پر ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ ماں اور بیٹے کے اطراف گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں کو دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت گاندھی خاندان کے وجود کو برداشت کرنے تیار نہیں۔ راہول گاندھی سے 50 گھنٹوں اور سونیا گاندھی سے دو دن پوچھ تاچھ کی گئی ۔ تحقیقاتی ایجنسی نے صدر کانگریس کی عمر اور ان کی علالت کا بھی کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھا۔ پوچھ تاچھ دراصل پارٹی کے حوصلوں کو پست کرنے کی ایک سازش ہے۔ جانچ کے لئے طلبی سے جب اطمینان نہیں ہوا تو ینگ انڈین دفتر کو مہربند کردیا گیا ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی رہائش گاہوں کے علاوہ پارٹی ہیڈ کوارٹر کا پولیس نے محاصرہ کرلیا جیسے کہ وہاں سیاستداں نہیں بلکہ دہشت گرد بستے ہوں۔ اگر واقعی کوئی بے قاعدگی ہوئی ہے تو اس کی جانچ کا طریقہ یہ نہیں ہوسکتا۔ جس خاندان کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک ملک کے لئے بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار بھی اس خاندان کی قربانیوں کی مثال پیش نہیں کرسکتے۔ جن کے دامن پر گجرات کے بے قصور اور مظلوموں کے خون کے دھبے ہیں، وہ اس خاندان پر طنز کر رہے ہیں جس نے دو وزرائے اعظم کو ملک کے اتحاد اور یکجہتی کیلئے قربان کیا۔ جدوجہد آزادی میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا کوئی رول نہیں ہے۔ جس وقت مجاہدین آزادی ملک پر نچھاور ہورہے تھے، اسی سنگھ پریوار کے آبا و اجداد انگریزوں کے لئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کر رہے تھے۔ ساورکر اور دوسروں نے جیل سے رہائی کیلئے انگریزوں کو معافی نامہ لکھ کر دیا تھا۔ مجاہدین آزادی کو دھوکہ اور انگریزوں کی غلامی کرنے والوں کے جانشین آج اقتدار میں ہیں اور وہ تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے دیش کے غداروں کو دیش بھکت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں موتی لال نہرو اور پنڈت جواہر لال نہرو کے رول کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ اب آزادی کے بعد نہرو جدید ہندوستان کے معمار ہوئے۔ پوکھرن تجربہ سے ہندوستان کو نیوکلیئر طاقت بنانے کا کارنامہ اندرا گاندھی نے انجام دیا ۔ راجیو گاندھی نے جدید ہندوستان کو انفارمیشن ٹکنالوجی سے روشناس کرایا۔ ان کارناموں کا صلہ ان کے خاندان کو ہراساں کرتے ہوئے دیا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم کیلئے اندرا گاندھی کے رول کی آر ایس ایس نے ستائش کی تھی لیکن آج کی بی جے پی گاندھی خاندان کی دشمن بن چکی ہے۔ افسوس کہ قوم کے محسن خاندان کے ساتھ عادی مجرموں اور قوم دشمن عناصر کی طرح سلوک کیا جارہا ہے۔
آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے موقع پر ملک بھر میں تقاریب کے ذریعہ بی جے پی خود کو مجاہدین آزادی کا جانشین اور حقیقی دیش بھکت ثابت کرنے کی مہم پر ہے۔ حب الوطنی محض زبان سے ادا کرنے سے مکمل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لئے قربانیوں کی تاریخ پر مبنی ماضی اور آئندہ بھی قربانیوں کا جذبہ ضروری ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اگر حب الوطنی اور آزادی کی 75 سالہ تقاریب کی بات کرے تو یہ کسی مذاق سے کم نہیں ہے ۔ ان تنظیموں کو ملک کی آزادی کا جشن منانے کا اس لئے بھی کوئی اخلاقی حق نہیں ہے کیونکہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے کسی رہنما نے جدوجہد آزادی میں اپنا ناخن بھی شہید نہیں کیا۔ مجاہدین آزادی کے خلاف کام کرنے والے آج خود کو ملک کا حقیقی وارث اور محافظ ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر 52 سال تک قومی پرچم نہیں لہرایا گیا۔ پہلی بار 15 اگست 1947 اور پھر دوسری مرتبہ 26 جنوری 1950 ء کو آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر ترنگا لہرایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے 52 سال تک قومی پرچم کو فراموش کردیا گیا۔ 26 جنوری 2002 ء سے آر ایس ایس نے دوبارہ ترنگا لہرانے کا آغاز کرتے ہوئے عوام کی تنقیدوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کیلئے آر ایس ایس نے بادل ناخواستہ ہیڈکوارٹر پر ترنگا لہرایا۔ ترنگا سے آر ایس ایس کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے عوام سے سوشیل میڈیا کے ڈی پی پر ترنگا رکھنے کی اپیل کی۔ مرکزی حکومت کے تمام محکمہ جات نے سوشیل میڈیا کے ڈی پی پر ترنگا رکھا لیکن آج تک آر ایس ایس کی ڈی پی پر ترنگا موجود نہیں ہے۔ اس بارے میں آر ایس ایس قائدین کا کہنا ہے کہ مناسب وقت پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ ترنگا کے احترام کے معاملہ میں آر ایس ایس کو اس قدر پس و پیش آخر کیوں ہیں اور ان کے پاس وزیراعظم نریندر مودی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بی جے پی نے کانگریس کی جانب سے سوشیل میڈیا ڈی پی پر ترنگا کے ساتھ پنڈت نہرو کی تصویر کو رکھنے پر اعتراض کیا لیکن بی جے پی قائدین اور خود وزیراعظم میں ہمت نہیں ہے کہ آر ایس ایس کو سوشیل میڈیا پر ترنگا رکھنے کی ہدایت دیں۔ مودی حکومت لاکھ 75 سالہ آزادی کا جشن منالے لیکن ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون حقیقی معنوں میں دیش بھکت ہیں اور کون ڈھونگ کر رہا ہے ۔ وسیم بریلوی کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے ؎
دوسروں کو مٹانے کی دھن میں
آدمی خود کو یوں مٹاتا ہے
جیسے چبھنے کی فکر میں کانٹا
شاخ سے خود ہی ٹوٹ جاتا ہے