دوسری لہر سے پرانے شہر میں تاجرین کی مشکلات میں اضافہ

   

حیدرآباد :۔ کوویڈ 19 کی دوسری لہر اور اس کے بعد عائد کئے جانے والے لاک ڈاؤن سے پرانے شہر میں تاجرین کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جو اس وبا کی پہلی لہر اور گذشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے باعث ان پر ہونے والے منفی اثرات کے باعث ہونے والے نقصانات سے سنبھلنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔ ان کی مشکلات کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کئی تاجرین اور دکانداروں نے شکایت کی کہ اس لاک ڈاؤن کے نرمی کے اوقات کے دوران ان کی دوکانیں اور تجارتی اداروں کو کھلی رکھنے کے باوجود کوئی کاروبار نہیں ہورہا ہے ۔ اس طرح ان کا کاروبار صفر ہو کر رہ گیا ہے ۔ شہر کے مشہور لاڈ بازار کے ایک تاجر سید مبین نے کہا کہ ’ میں صرف دوکان کو صاف کرنے کے لیے آتا ہوں اور پھر شٹرس ڈال کر دوکان بند کردیتا ہوں ۔ مجھے اتنی کمائی بھی نہیں ہورہی ہے کہ میں اپنی شاپ کا کرایہ اور برقی بل ادا کرسکوں ‘ ۔ ماہ رمضان المبارک کے دوران ان تاجروں نے کچھ کاروبار کیا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے نفاذ سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں اور وہ ان کی توقع کے مطابق کاروبار نہیں کرپائے اس طرح ان کا کافی نقصان ہوا ۔ عام طور پر ماہ رمضان المبارک کے بعد دو ماہ تک بازار میں خریداروں کا ہجوم ہوا کرتا ہے اور لوگ کپڑے ، فٹ ویر ، چوڑیاں اور سونا خریدتے ہیں ۔ مدینہ بلڈنگ کے ایک اور تاجر نے کہا کہ ’ لیکن لاک ڈاؤن کے باعث انہوں نے اپنے خریداری کے منصوبوں کو ملتوی کردیا یا چھوٹے پیمانہ پر خریداری کررہے ہیں ‘ ۔ نیو لاڈ بازار میں ایک ویمنس اپارل اسٹور چلانے والے محمد شکور نے کہا کہ ’ میں نے سیلمین اور سپورٹ ملازمین سے دوکان کو نہ آنے کے لیے کہا ہے کیوں کہ میں انہیں آٹو رکشا کا کرایہ تک ادا نہیں کرسکتا ہوں کیوں کہ کچھ بھی کاروبار نہیں ہورہا ہے ‘ ۔ مدینہ بلڈنگ اور شاہ علی بنڈہ کے درمیان اور اس کے اطراف میں تقریبا 4000 دوکانیں ہیں ۔ اس کے علاوہ تقریبا 2000 چھوٹے کاروبار کرنے والے ہیں جو مارکٹ میں سڑکوں پر کاروبار کرتے ہیں ۔ تاجرین کا کہنا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم بھی ہوگیا تو کاروبار میں تیزی آنے کے لیے کم از کم ایک ماہ کا وقت لگے گا ۔۔