حیدرآباد ۔ 26 ۔ اگست : ( سیاست نیوز ) : دوسہ جو آج شہر ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں صبح کے ناشتے کے علاوہ دوپہر اور رات کے وقت کے لیے بھی پسندیدہ بن چکا ہے ۔ یہ صدیوں پرانا خزانہ ہے جسے اب عالمی سطح پر پہچان مل چکی ہے ۔ حال ہی میں Taste Atlas بین الاقوامی فوڈ اینڈ ٹراویل گائیڈ نے دوسہ کے دنیا کا قدیم ترین پکوانوں میں درج کیا ۔ اسے سویاساس ، سوسوپ اور ساورکراٹ جیسے عالمی پکوان کے ساتھ شامل کیا گیا ۔ ہندوستان میں خاص کر جنوبی ہندوستانیوں کے لیے یہ ایک قابل فخر یاد دہانی ہے جو ہمارے کھانے کو قدیم ورثے کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ تاریخی ریکارڈوں کے مطابق تامل ناڈو کے قصبوں میں 8 ویں صدی میں دوسہ کا پتہ چلتا ہے ۔ قدیم تامل سنگم ادب میں خمیر شدہ چاول اور دال کی تیاری کا ذکر ہے ۔ ابتدائی دور میں دوسے نرم اور موٹے ہوتے تھے لیکن اب دوسہ پتلا اور کرکرا ہوچکا ہے ۔ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کرناٹک میں ابھرا اور تیزی سے پہچان بنانے میں کامیاب ہوا ۔ جنوبی ہندوستان میں دوسہ کو روزمرہ کی زندگی میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ کیلے کے پتوں پر چٹنی اور سانبر کے ساتھ گرم گرم پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ تہواروں کے ناشتے ، شادی کی دعوتوں اور گھریلو باورچی خانے میں یکساں طور پر مقبول ہے ۔ چاول اور اڑد کی دال کے اجزاء سادہ سستی غذائیت بخش ہیں جو مقامی طور پر معمولی ذرائع سے جادو بنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ 20 ویں صدی کے وسط تک اس نے چینائی کے ٹفن سنٹروں سے سنگاپور کے ہاکر اسٹالس اور لندن کیفے تک اپنی رسائی حاصل کرلی ۔ آج دوسہ عالمی پسندیدہ غذا بن گیا ہے ۔ دوسے کو مختلف اجزا کے ساتھ بنایا جاتا ہے جو دوسہ کا ذائقہ کھانے کے شوقین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔۔ ش