رام پنیانی
حالیہ عرصہ میں تعلیم کے اعلیٰ مقامات پر خودکشی کے ارتکاب کی خبریں ماضی کے مقابل زیادہ پیش آرہی ہیں۔ زیادہ تر مرنے والوں کا تعلق دلتوں بالخصوص آدیواسیوں سے ہے، جبکہ چند دیگر نے بھی تعلیمی دباؤ نہ جھیل پانے کے سبب ایسا انتہائی اقدام کرچکے ہیں۔ روہت ویمولا کے کیس میں ذات پات سے تعصب کا معاملہ رہا اور اسٹوڈنٹ روہت کے طور پر اُس کی سرگرمیوں کو مخالف قوم باور کرایا گیا تھا۔
دو دیگر کیس جو نمایاں ہیں، بلند حوصلہ گائناکالوجسٹ پائل تاڈوی ، اور آئی آئی ٹی مدراس میں اپنی پوسٹ گرائجویشن کی تعلیم پانے والی فاطمہ لطیف کے ہیں۔ پائل ، بھیل مسلم اور ڈاکٹر سلمان تاڈوی کی بیوی تھی، اور اسے لگ بھگ روزانہ اُس کے سینئرس کی جانب سے ہراساں کیا جارہا تھا۔ فاطمہ ہونہار نوجوان طالبہ تھی جو آئی آئی ٹی ایم میں داخلے کے بعد اور اس سے قبل زیادہ تر امتحانات میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرتی آرہی تھی۔ اُس کا سامنا حسد کی مضبوط دیوار سے ہوگیا، جہاں اُس کے اعلیٰ معیار کے باوجود اسے ’داخلی امتحان‘ میں کمتر نشانات دیئے گئے۔ اسے بدنام کئے جانے پر اُس نے اپنے ایک ٹیچر کا نام لیا تھا اور اپنے والد کو لکھا تھا، ’’اباجان، میرا نام ہی (آئی آئی ٹی ایم میں) مسئلہ بنا دیا گیا ہے‘‘۔ اگرچہ ہتک و بے عزتی کی دیگر اقسام کے معاملے ذات پات کی اساس پر، قبائلی ہونے پر یا تبدیل شدہ جنس کی بنیاد پر کثرت سے پائے جاتے ہیں، لیکن پائل اور فاطمہ کے دو کیسوں کا تعلق مسلم کمیونٹی کے تئیں عیارانہ اور کھلے طور پر ناپسندیدگی و نفرت کا حصہ بھی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ رجحان صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر پایا جاتا ہے ، جس میں 9/11، 2001ء کے بعد شدت آئی، جب امریکی میڈیا نے فقرہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اختراع کرتے ہوئے اس کی خوب تشہیر کی۔ بلاشبہ دہشت گردی سب کو متاثر کرنے والی سوچ ہے جس میں کئی مذاہب کے لوگ مختلف وجوہات کی بناء ملوث ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کا آئرش ریپبلکن آرمی سے تعلق رہا ہے، سری لنکا میں اس طرح کی سرگرمیوں میں بدھسٹ راہب ملوث ہوئے ہیں، وہاں ایل ٹی ٹی ای کی دہشت بھی رہی، جس سے وابستہ دھانو نے راجیو گاندھی کو ہلاک کیا، لیکن ڈبلیو ٹی سی حملے تک دہشت گردی کو کبھی مذہب سے نہیں جوڑا گیا تھا۔ یہ حملہ نہایت ہولناک رہا جس میں مختلف ممالک اور مختلف مذاہب کے تقریباً تین ہزار بے قصور افراد مارے گئے۔ اس کیلئے اسامہ بن لادن ۔ القاعدہ کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ یہ اور معاملہ ہے کہ خود امریکا نے ہی القاعدہ کو پروان چڑھانے میں مدد کی تھی، اسے زبردست فنڈز فراہم کئے (آٹھ ہزار ملین ڈالر اور سات ہزار ٹن اسلحہ)۔
اسکالر محمود ممدانی نے اپنی کتاب ’گڈ مسلم ، بیاڈ مسلم‘ میں سی آئی اے دستاویزات کی اساس پر اُس میکانزم کی تفصیل پیش کرتے ہیں جس کے ذریعے امریکا نے القاعدہ کو اُبھارا، کس طرح اس کے نظریہ کے خدوخال واشنگٹن میں تیار کئے گئے۔ بے شک، بعد میں مغربی ایشیا میں امریکی پالیسیاں جن کا مقصد مغربی ایشیا میں تیل کی دولت پر کنٹرول کرنا رہا، ان کے نتیجے میں القاعدہ کی دیگر خطرناک شاخیں آئی ایس آئی ایس اور آئی ایس کی شکل میں وجود میں آئیں۔ سابق میں امریکی وزیر خارجہ ہلاری کلنٹن نے بے باکانہ بیان میں اعتراف کیا تھا کہ کس طرح القاعدہ کو امریکہ کی جانب سے افغانستان میں روسی افواج سے لڑنے کیلئے فروغ دیا گیا۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں یہاں یاد رکھنا چاہئے کہ جن لوگوں سے ہم آج لڑرہے ہیں ، ہم نے انھیں بیس سال قبل فنڈز دیئے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ان مجاہدین سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے وہابی نظریہ کو بڑھاوا دیں تاکہ ہم سویت یونین کو شکست دے سکیں۔‘‘
عالمی اسلامی فوبیا کی جڑیں امریکی فتنہ پردازی میں پیوست ہیں۔ ہندوستان میں یہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی موجودہ صورتحال میں اضافہ ہوگیا۔ یہ رجحان ’عام سماجی حس‘ کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں برطانوی سامراجوں کی متعارف کردہ فرقہ وارانہ تاریخ نویسی سے جڑی ہیں جو منتخب انداز میں پیش کی گئیں۔ جہاں ان مخالف مسلم نظریات کی جڑیں انگریزوں کے پیش کردہ نصاب میں مضمر ہیں، وہیں اس کا پھیلاؤ مختلف طریقوں سے کیا گیا۔ اس کی جڑیں فرقہ پرست تنظیموں جیسے آر ایس ایس سے جڑی ہیں جبکہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کو حکمران کے طور پر پیش کرنے والی اپنی مخصوص تاریخ نویسی اختیار کرتے ہوئے اپنا حصہ ادا کیا۔
آر ایس ایس شاکھاؤں میں مسلم بادشاہوں کے ہندو منادر کو تباہ کرنے اور اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلانے کی حرکتوں نے اورنگ زیب کے منتخب واقعات نوجوان ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی اساس ہے۔ اس میں بے شمار سرسوتی شیشو مندروں سے مدد ملی اور کئی اقدامات اور تنظیموں نے ہندوؤں کی تعریف و توصیف اور مسلمانوں کو ان کی بگڑی ہوئی تصویر بناکر پیش کیا۔ اس رجحان کو 1980ء کے دہے میں بڑی جہت ملی جب رام مندر کی تعمیر کیلئے رتھ یاترائیں نکالی گئیں۔ جو بات پھیلائی گئی وہ یہ کہ بابر کے جنرل میر باقی نے لارڈ رام کے مقام پیدائش پر رام مندر کو تباہ کیا تھا۔
بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں بیان کیا گیا کہ عدالت کے مطابق مسجد کے نیچے ’غیراسلامی ڈھانچۂ تعمیر‘ پایا گیا۔ اور اے ایس آئی رپورٹ کے مطابق کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ڈھانچہ مندر ہی تھا یا یہ کہ اسے تباہ کیا گیا یا یہ کہ وہ لارڈ رام کی جائے پیدائش ہے۔ یہ تمام سچائی کچھ تاخیر سے منظرعام پر آئی ہے کیونکہ اب مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی جھوٹی باتیں سماج میں اکثر لوگوں کے فہم کا اصل حصہ بن چکا ہے۔ لہٰذا، فاطمہ کا ٹیچر یا پائل کے سینئرس ایک طرح سے کچھ مختلف نہیں کہ وہ اپنے مسلم اسٹوڈنٹس یا جونیئر مسلم۔ ٹرائبل ساتھی کے تئیں ناپسندیدگی کے عیارانہ اشارے دیتے ہیں۔عوام کی ذہن سازی میں میڈیا کی طاقت بے حد ہے۔ میڈیا کی طاقت کا عروج تب دیکھنے میں آیا جب امریکا نے اس بہانے ویتنام پر حملہ چھیڑ دیا کہ سامراجیت سے اس کی آزادی آزاد دنیا پر حملہ ہے۔ نوام چومسکی نے درست کہا کہ امریکی میڈیا امریکا کے سامراجی عزائم کیلئے ’’جواز پیدا کرتا‘‘ ہے۔ آج یہاں امریکی میڈیا عالمی اسلاموفوبیا کو پھیلانے میں نہایت طاقتور ہے، لیکن انڈین میڈیا نے گزشتہ دو دہوں میں نے کافی پیش قدمی کرتے ہوئے نہ صرف اس رجحان کی تعمیل کی ہے جو کچھ امریکی میڈیا کرتا ہے، بلکہ آر ایس ایس تنظیموں کے پیدا کردہ سماجی طور تقسیم پسند پروپگنڈے کو بھی پھیلایا ہے، جو گزشتہ کئی دہوں سے زور و شور سے کام کررہے ہیں۔
کیا فاطمہ اور پائل جیسے مسلمانوں کو ہتک، لعن طعن اور توہین سے بچایا جاسکتا ہے جس کا انھیں اُن کے سینئرس نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ پائل اور فاطمہ زیادہ پیچیدہ مسئلہ کا محض اشارہ ہیں! امریکی میڈیا کی جانب سے نفرت پر مبنی پروپگنڈوں کے ازالے کیلئے کچھ خاص نہیں کیا گیا، جس کا اثر گلوبل میڈیا پر پڑرہا ہے اور یہاں وطن میں یہی کام ہندو قوم پرستوں کی فتنہ پردازی کررہی ہے۔ مسلم برادری جسے اس طرح کے تعصب اور غلط فہمیوں کی چوٹوں کو جھیلنا ہے، اس کی زبوں حالی غیرمعینہ ہے۔ کیا ہم اٹھ کھڑے ہوکر سماج کے کمزورتر طبقات کے خلاف ہر طرف جاری جھوٹی مہمات کی مزاحمت کرسکتے ہیں؟
[email protected]
